ٹھنڈک تک عدم رسائی کے سبب جنوبی ایشیا میں 20 فیصد لوگ شدید خطرات سے دوچار
ورلڈ بینک کی ’تھرمل کمفرٹ اور انڈور ایئر کوالٹی‘ کے عنوان سے شائع رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ہر پانچ میں سے ایک شخص کو ٹھنڈک اور محفوظ اندرونی درجہ حرارت تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے شدید خطرات سے لاحق ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو پرتعیش زندگی نہیں بلکہ ترقی کے لیے ضروری ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھنے سے، ٹھنڈک اور وینٹی لیشن کی مانگ میں اضافہ متوقع ہے جس میں توانائی اور آب و ہوا کے اثرات بڑے پیمانے پر مرتب ہوں گے۔
پیر کو جاری ہونے والی رپورٹ میں بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں عمارتوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جبکہ افغانستان، بھوٹان، مالدیپ، نیپال اور سری لنکا سمیت جنوبی ایشیائی ممالک کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر رپورٹ پورے جنوبی ایشیائی خطے میں ڈیزائن کے عمل کے ابتدائی مراحل میں غیر فعال اقدامات جیسے کہ عمارت کی سمت اور ترتیب کو بہتر بنانا، مؤثر لاگت، کم کاربن کولنگ اور وینٹی لیشن جیسے امکانات کو اجاگر کرتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کو زیادہ درجہ حرارت اور شدید گرمی کے لیے تیار رکھنے کے لیے مؤثر کوششوں کی ضرورت ہے، ایسی عمارتوں کا ڈیزائن اور تعمیر ہونا ضروری ہے جو بدلتی ہوئی آب و ہوا کے مطابق خود کو ڈھال سکیں، جبکہ خطے کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ٹھنڈک اور وینٹی لیشن کی ضروریات کو کافی حد تک پورا کرے۔
موت کی تمام وجوہات میں سے تقریباً 20 فیصد کا اضافہ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوتا ہے اور جنوبی ایشیا کے لاکھوں لوگوں میں سانس کی شدید اور دائمی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے، یہ خطہ عالمی سطح پر ان مقامات میں سے ہے جہاں سیاہ کاربن کا اخراج سب سے زیادہ تعداد میں ہوتا ہے جو گاڑیوں، چولہوں، زرعی استعمال اور صنعتوں سے خارج ہوتا ہے۔
زیادہ تر فضائی آلودگی اکثر گنجان آباد شہری اور صنعتی علاقوں میں پائی جاتی ہے، اوزون اور امونیا کا معاملہ الگ ہے جو دیہی علاقوں میں اکثر زیادہ ہوتے ہیں، بنگلہ دیش، بھارت، نیپال اور پاکستان مسلسل فضائی آلودگی کے لحاظ سے دنیا کے سرفہرست چار ممالک میں شامل ہیں جبکہ فضائی آلودگی کے حوالے سے 50 میں سے 42 شہر جنوبی ایشیا کے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں دنیا کی آبادی کا 23 فیصد (1.9 ارب لوگ) آباد ہیں اور اسے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید خطرات کا سامنا ہے، بڑھتے ہوئے علاقائی درجہ حرارت اور موسمیاتی تبدیلی کی شدت کے ساتھ ان اثرات کے شدت اختیار کرنے کی توقع ہے۔
چونکہ جنوبی ایشیا موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار خطوں میں سے ایک ہے اس لیے رپورٹ، گلوبل وارمنگ میں اس کے کردار کو کم کرنے کے لیے فوری کوششوں کے ساتھ ساتھ انہیں شدید موسمی حالات کے لیے تیاری اور خود کو اسی حساب سے ڈھالنے کا مطالبہ کرتی ہے۔