جرائم کی معیشت
"انہوں نے سارے لیاری کو بھکاری بنادیا ہے"- قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک سینئرافسر نے مجھ سے ایک غیر رسمی گفتگو میں شکایت کی- ان کا اشارہ ان بدنام زمانہ جرائم پیشہ افراد (Gangsters) کی طرف تھا جن کا تعلق اس علاقے سے ہے جو بدامنی کا شکار ہے-
گزشتہ کئی برسوں سے میں کراچی کے اس قدیم علاقے کی گلیوں سے گزرتا رہا ہوں اورچھوٹے بڑے ہر قسم کے کاروباری افراد سے میری ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، جن کی یہاں دکانیں ہیں-
میرے اس شہر میں تشدد کی لہر کو ایک بار پھر بڑھتے دیکھ کرمجھے وہ ساری باتیں ایک بار پھر یاد آرہی ہیں جو یہاں ہمارے درمیان ہوتی رہی ہیں اور معاشی امور کے صحافی کی حیثیت سے میرا پسندیدہ موضوع رہی ہیں-
پرانا شہرتقریبا پانچ سے چھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جہاں ایک دوسرے سے ملحق کئی مارکیٹیں ہیں- پاکستان کی تقریبا تین چوتھائی برآمدات جن کا تعلق تیل کی مصنوعات سے نہیں ہے اس علاقے کے بیوپاری کرتے ہیں.
اگرچہ کہ صحیح صحیح اعدادوشمار فراہم کرنا ممکن نہیں ہے لیکن ایک سیدھے سادے اندازے کے مطابق ہر سال دوسوبلیں روپے کا کاروبار اس علاقے سے ہوتا ہے-
اس علاقے میں مزدوروں کی طلب بہت زیادہ ہے اجرت پر صبح کو کام کرنے والے مزدور آس پاس کے رہائشی علاقے سے بڑی تعداد میں کام کرنے آتے ہیں اس علاقے میں گودام تجارت کا لازمی حصّہ ہیں اور میں یہ دیکھ کرحیران رہ گیا کہ چھوٹے چھوٹے دکانداروں کے بھی اپنے اپنے گودام ہیں-
بولٹن مارکیٹ اور بمبئی بازار کے علاقے سے گزریں توآپ کو بے شمار منی چینجرز اور بینک نظر آئینگے- میٹھادر پولیس اسٹیشن کے عین سامنے ایکسچینج کمپنیوں کی ایک لمبی قطار نظر آئیگی جن کا مقابلہ گلیوں میں قائم منی چینجروں سے ہے جو اپنی نقدی شیشوں کے ڈبوں میں سجاکر رکھتے ہیں-
بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کی بڑی تعداد سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں کا کاروبار کتنا وسیع ہے- برامدات کی ادائیگیاں مختلف قسم کے لیٹر آف کریڈٹ سے بینک کے ذریعہ کی جاتی ہیں اورایکسچینج کمپنیوں کے ذریعہ مخفی طریقوں سے بھی رقومات بھیجی جاتی ہیں-
مقصد واضح طور پر یہی ہے کہ جب برامدات بندرگاہ پر پہنچیں تو اس کی قیمت چھپی رہے تاکہ ٹیکس کی بچت ہوسکے- اس پوری پٹی میں معیشت کی سرگرمیاں پورے زوروشور سے جاری ہیں- مزدوروں اور گوداموں کی طلب کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی دکانوں، ٹرانسپورٹ، بینکنگ اور کرنسی ایکسچینج کی طلب بھی ہے جسکے نتیجے میں تاجروں، ہول سیل کا کاروبارکرنے والوں، ڈرائیوروں، روزانہ اجرت پرکام کرنے والے مزدوروں، اوڈیٹروں، بینک ٹلرزاورمنی چینجروں، اسکریپ ڈیلروں، باورچیوں اور ویٹروں وغیرہ کیلئے روزگار کے مواقع سال بھر میسر رہتے ہیں-
لیکن گزشتہ چند برسوں میں پرانے شہر کا یہ علاقہ جہاں روزانہ کروڑوں روپیہ کا کاروبار ہوتا ہے لیاری کے بدمعاشوں کے نرغے میں ہے جو مختلف طریقوں سے سڑکوں کی اس معیشت کو بھاری نقصان پہنچارہے ہیں-
مثلاً، تقریبا دس سال سے زیادہ عرصے پہلے سے لیاری سے مزدوروں اور گوداموں کی طلب پوری ہوتی تھی لیکن اب کاروباری افراد اس علاقے سے جہاں بدامنی کا دوردورہ ہے، کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتے-
بلوچ نوجوانوں کی بھاری اکثریت کو جن کا اس تشدد سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، شک و شبہ کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے، اور انہیں کوئی ملازمت دینے کو تیار نہیں کیونکہ زیادہ تر تاجروں نے اپنے گودام سائٹ یا شیرشاہ کی طرف منتقل کر دئے ہیں یا پھر یہاں اپنے رہائشی مکانوں کو گوداموں میں تبدیل کر دیا ہے-
سینکڑوں تجارتی ایسوسی ایشنز یہاں موجود ہیں، جن میں سے بعض کی موجودگی تو ناقابل فہم ہے- جب بھی میں وہاں جاتا ہوں ہمیشہ ایک نئی ایسوسی ایشن نظر آتی ہے- آخری بار مجھے پاؤڈرڈ ملک امپورٹرزایسوسی ایشن (پاؤڈرکا دودھ برآمد کرنے والی ایسوسی ایشن) نظر آئی جن کے اراکین کی تعداد نصف درجن ہے جن کے درمیان پیچیدہ سیاست نظر آتی ہے ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کو پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے-
ایک دن میں سونے کے تاجروں کی ایسوسی ایشن کے لیڈر کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے اس کی میز پر دو تصویروں کے فریم دیکھے- ایک تصویرمیں وہ پولیس کے چیف کے ساتھ مصافحہ کر رہے تھے دوسری تصویر میں وہ لیاری کے گینگ کے ایک خطرناک لیڈر سے ہاتھ ملا رہے تھے-
صرافہ بازار پرانے شہر اور لیاری کے عین درمیان واقع ہے اور یہ اکثر و بیشتر گینگسٹرز کی کارروائیوں کا نشانہ بنتا رہتا ہے-
معاشی سرگرمیوں کے اس وسیع علاقے کے مرکز میں لیاری ٹاؤن ہے جس کا ماضی میں اس پرانے شہر کی معاشی سرگرمیوں میں اہم حصہ تھا- آج لیاری کی گلیوں کے جال کے ہر سرے پر جو پرانے شہر کو جاتی ہیں ٹریڈ ایسوسی ایشنوں کے اصرار پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں جو فی الحال اگرچہ روک دی گئی ہیں لیکن کام کرنے والوں کو جو دھمکیاں مل رہی ہیں اس لئے ہوسکتا ہے کہ مزید رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں-
لیاری کو چونکہ اس کے ملحقہ علاقوں کی معیشت سے روز بروز دور کیا جا رہا ہے --- پرانے شہر سے مشرق کی طرف یا جنوب میں پورٹ کی طرف یا پھر سائٹ کے صنعتی علاقوں میں شمال میں، اس کی معیشت میں سڑاند پیدا ہو رہی ہے-
جرائم کی معیشت جو علیحدگی کی بنجر زمیں پر اپنے پیر پھیلاتی ہے سرتوڑ کوشش کرتی ہے کہ عام لوگوں کے رشتے شہر کی وسیع تر روایتی معیشت سے ٹوٹ جائیں- یہ مزدوروں اور طالب علموں کو بھکاریوں اور چوراچکوں میں تبدیل کر دیتی ہے-
بہت سے گینگ لیڈر اپنے آپ کو ایک طرح کا "رابن ہڈ" بنا کر پیش کرتے ہیں اور ایک ایسے طاقتور انسان کا روپ دھار لیتے ہیں جو لوگوں کے مسائل کو حل کرتا ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ خود ایک مسئلہ ہیں جس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے.
پاکستان کے بہت سے علاقے آج جرائم کی خطرناک معیشت کا شکارہو رہے ہیں سیاسی جماعتوں اور منظم جرائم کے درمیان ایک بدنما گٹھ جوڑبن گیا ہے- چنانچہ ایک ایسا متبادل نظام وجود میں آگیا ہے جہاں جرائم پیشہ افراد سڑکوں پر اپنی طاقت اور دولت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور سیاست دان ان کی سرپرستی کرتے ہیں صرف لیاری ہی اس مصیبت میں مبتلا نہیں ہے لیکن جیسے جیسے گینگ واربڑھتی جارہی ہے اس کی معیشت ملحقہ علاقوں کے مقابلے میں زیادہ متاثرہو رہی ہے-
تشدد اور منظم جرائم کا بڑھتا ہوا دائرہ لوگوں کی زندگیوں پر گہرے اور طویل اثرات چھوڑ رہا ہے جس سے کراچی کا ایک پورا ٹاؤن شپ متاثر ہو رہا ہے- یہ عذاب پورے شہر کو اندر سے کھائے جا رہا ہے اس نے ایک پرامن علاقے کو جہاں کبھی ایک پرامن اور متنوع نسلوں پر مشتمل آبادی رہتی تھی بھکاریوں اور چور اچکوں کے جتھوں میں تبدیل کر دیا ہے-
جرائم کا کاروبار اپنے اطراف کے علاقوں پر اثر انداز ہوکر ان کی ماہیت تبدیل کردیتا ہے- یہ وہ حقیقت ہے جو پرانے شہر کے علاقے میں نظر آتی ہے اور اگر سیاستدان جرائم پیشہ افراد کو اپنے مطلب کیلئے استعمال کرنے لگیں تو پھر اور زیادہ خطرناک صورت حال پیدا ہو جاتی ہے-
ترجمہ: سیدہ صالحہ
تبصرے (2) بند ہیں