• KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:44pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:52pm
  • KHI: Zuhr 12:29pm Asr 5:06pm
  • LHR: Zuhr 12:00pm Asr 4:44pm
  • ISB: Zuhr 12:05pm Asr 4:52pm

عالمی یوم خوراک: پانی کی کمی کے شکار ممالک میں 2.4 ارب افراد کی حالتِ زار اجاگر

شائع October 16, 2023
دنیا بھر میں آج یوم خوراک منایا جا رہا ہے—فائل/فوٹو: اے ایف پی
دنیا بھر میں آج یوم خوراک منایا جا رہا ہے—فائل/فوٹو: اے ایف پی

آج عالمی یوم خوراک منایا جا رہا ہے اور اسی حوالے سے پانی کی کمی کے شکار ممالک میں رہنے والے 2 ارب 4 کروڑ افراد اور سمندری خوراک پر انحصار کرنے والے 60 کروڑ لوگوں کی حالتِ زار پر روشنی ڈالی جائے گی جس میں آلودگی، ماحولیاتی نظام کی تنزلی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس دن کا مرکزی خیال ’پانی زندگی ہے، پانی خوراک ہے، دونوں میں سے کسی کو نہ چھوڑیں‘ ہے، جس میں ’لانگ انڈس انیشیٹو‘ کے اہداف اور مقاصد سے ہم آہنگ کرنا ہے جو خاص طور پر پاکستان میں موسمیاتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے اہم تصور کیا جاتا ہے۔

یہ اقدام پاکستان میں دریائے سندھ کی ماحولیاتی صورت حال بہتر کرنے اور اسے دوبارہ فعال کرنے کی ایک وسیع کوشش ہے جو موسمیاتی تبدیلی پر منفی اثرات ڈال رہی ہے۔

فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے مطابق دریائے سندھ کا 80 فیصد پانی خوراک کی پیداوار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، زراعت پر پانی کے معیار، پلاسٹک کے استعمال سے مچھلی اور سمندری حیات پر اثرات کی پیمائش اور اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ کے اداروں کے درمیان موسمیاتی تبدیلی تسلیم کرنے اور دریائے سندھ پر اس کے اثرات کے ادراک کے لیے’لانگ انڈس انیشیٹو’ باہمی تعاون کا ایک منصوبہ ہے، جو دریائے سندھ کے نشیبی علاقوں میں ماحولیاتی صحت کی بہتری اور دوبارہ فعال کرنے کے لیے مخصوص ہے۔

ایف اے او کا کہنا ہے کہ خوراک کا عالمی دن اور ’لانگ انڈس انیشیٹو‘ موسمیاتی چیلنجز کی طرف توجہ دلانے، پائیدار زراعت کے فروغ، سندھ کے نشیبی علاقوں میں ماحولیاتی صحت بحال کرنے، حتمی طور پر ایک ایسی دنیا کی تخلیق جہاں کوئی بھی خوراک اور بہتر ماحول سے محروم نہ رہے۔

صدر مملکت عارف علوی نے اس دن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں قدرتی وسائل کے تحفظ، پیدوار بڑھانے اور غذائی قلت کے خاتمے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ور کہا کہ مذکورہ وعدوں کی بنیاد ٹھوس ثبوت اور بنیادی وجوہات کی مشترکہ تفہیم پر ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ غذائیت سے بھرپور خوراک کی پیداوار میں اضافے کے لیے متعدد محاذوں پر پیش رفت ضروری ہے جن میں پانی اور خوراک کا گورننس سسٹم بہتر کرنا، واٹر مینجمنٹ کی فنڈنگ، دیہاتی ترقیاتی پروجیکٹس اور آب پاشی کا بہترین نظام شامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نشیبی سندھ کے نظام آب پاشی (آئی بی آئی ایس) میں لگ بھگ 5 لاکھ ٹیوپ ویلز ہیں جو ایک اندازے کے مطابق 50 ارب کیوبک میٹر پانی حاصل کرتے ہیں، یہاں تک کہ ڈومیسکٹ سیکٹر میں میں زیرزمین پانی کا غلط استعمال مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس سے یہ نایاب قدرتی ذریعہ تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا ہے۔

علاوہ ازیں، 2022 میں آنے والے سیلاب بھی موسمیاتی تبدیلی کا ثبوت پیش کر رہے ہیں جس سے 3 کروڑ لوگ متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر معاشی نقصانات کا سبب بنا۔

پاکستان میں زیر زمین پانی کا 90 فیصد استعمال دیہی علاقوں میں ہے اور لگ بھگ 50 فیصد استعمال زراعت کے شعبے میں ہے۔

آئی بی آئی ایس کا اخراج اور بارشیں زیرزمین پانی کے دوبارہ اضافے کے بنیادی ذرائع ہیں۔

خوراک کے عالمی دن کے موقع پر ایف اے او نے عزم کیا ہے کہ وہ پانی کا انتظام اور گورننس کی بہتری کے لیے اپنے جدید ترین ٹولز کو وسعت دے گا تاکہ اس میں مزید ممالک شامل ہوں۔

اس حوالے سے ’اوپن ایکسیس ریموٹلی سینس ڈیرائیوڈ ڈیٹا کے ذریعے پانی کی پیداواری صلاحیت‘ (ڈبلیو اے پی او آر) کا نیا ورژن لانچ کر دیا گیا، افریقہ اور مشرق میں 6 سال کی کامیابی کے بعد اب اس کا ڈیٹا تمام ایف اے او ممالک کے لیے دستیاب ہے۔

پاکستان اور کولبمیا ان اول ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے ایف اے او سے صلاحیت میں اضافے کے لیے ہانمی بھری ہے۔

ایف اے او کا پورٹل ’ڈبلیو اے پی او آر‘ زراعت میں پانی کی اصل کھپت، آب پاشی اور اقتصادی قدر کے اضافے کا پتا لگانے کے لیے سٹیلائٹ ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔

مذکورہ پروجیکٹ پانی کے استعمال کی معمولی قیمت یا ویلیو ایڈڈ کا اندازہ لگانے کے لیے اسٹیک ہولڈرز، حکام اور چھوٹے کسانوں کو فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے جس سے پانی کا استعمال ہمیشہ کے لیے کم نہیں کر سکتا۔

عالمی بینک، یورپی بینک، تعمیراتی اور ترقیاتی، افریقی ترقیاتی بینک، گرین کلائمٹ فنڈ، عالمی ماحولیاتی سہولت، دیگر ترقیاتی ادارے اور مالیاتی میکنزم سب اپنے چند اقدامات میں پورٹل کا استعمال کر رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 30 اپریل 2025
کارٹون : 29 اپریل 2025