کول پاور پلانٹس کی بندش کا خدشہ، ممکنہ چیلنجز اور مواقع پر اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
اقوام متحدہ نے پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی بندش سے جڑے خدشات سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے اس سے نمٹنے کے لیے توانائی کا تحفظ، ماحولیاتی اور معاشی اثرات اور بجلی پیدا کرنے کے متبادل طریقوں کے امکانات کا جائزہ ضروری ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے ایشیا اور بحرالکاہل (یو این ای ایس سی اے پی) کی حال ہی میں شائع رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں سب سے اہم چیلنجز میں سے ایک کوئلے کی موجودہ گنجائش اور پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت ہونے والے کوئلے سے متعلق طویل مدتی معاہدے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ’پاکستان میں کوئلے کے استعمال میں مرحلہ وار کمی‘ کے عنوان سے تیار کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومت کو مالی اور گردشی قرضوں کی وجہ مذکورہ پلانٹس فوری طور پر بند کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مزید عالمی مشکلات میں معاشی عناصر جیسا کہ روس-یوکرین جنگ اور کورونا کی وبا سے متعلق مسائل قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافے اور کوئلے سے بجلی کی پیداوار پر انحصار میں اضافہ شامل ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے 11 میں سے 9 پاور پلانٹس سی پیک معاہدوں سے جڑے ہوئے ہیں، چین نے 2021 کے بعد بیرون ملک کوئلے پر چلنے والے توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری روکنے کا اعلان کیا تھا جو کوئلے کا استعمال ترک کرنے کا اچھا موقع ہے۔
رپورٹ میں زور دیا گیا کہ ملک کو استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے 2021 کے مقابلے میں 2030 تک گرین انرجی میں سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت ہے، اس کے لیے سرمایہ بڑھانے اور اس سے دوبارہ مختص کرنے کے ساتھ ساتھ کم کاربن کا حامل ایندھن، مؤثر توانائی میں تبدیل جبکہ حیاتیاتی ایندھن میں سرمایہ کاری کم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اصلاحات کے لیے مؤثر فنانسنگ کا طریقہ کار، رعایتی فنانس، گرانٹس اور جدید مالیاتی آلات کی شناخت اور تبدیلی کے لیے سرمایہ جمع کرنا انتہائی ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کوئلے سے تبدیلی کے لیے جسٹ انرجی ٹرانزیشن پارٹنرشپس (جے ای ٹی پیز) بنیادی ذریعہ ہے جس کا مقصد حیاتیاتی ایندھن سے تبدیلی کا انتظام کرتے ہوئے قومی ماحولیاتی اہداف کو صفر اخراج اور قابلِ تجدید توانائی میں سرمایہ کاری فروغ دینا ہے۔
رپورٹ میں نشان دہی کی گئی کہ پاکستان میں کوئلے پر انحصار کم کرنا ایک مشکل کام ہے جس کے لیے جامع اور کثیر الجہتی نکتہ نظر کی ضرورت ہے، توانائی کے لیے کوئلے کا خاتمہ پاکستان کے لیے چیلنج اور بیک وقت فائدہ مند بھی ثابت ہو سکتا ہے، منتقلی کے مرحلے کے لیے جامع نکتہ نظر کی ضرورت ہے جو توانائی کی پیداوار اور اس کے دیگر منظرناموں پر مشتمل ہو۔
بتایا گیا کہ منتقلی میں مدد کے لیے شعبوں اور اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے پر توجہ بڑھانے کی ضرورت ہے، پاکستان کے پاس قابل تجدید توانائی کے ذرائع بہت زیادہ ہیں لیکن گرڈ انفرا اسٹرکچر سپورٹ کے لیے قابل تجدید ذرائع کے انضمام کی حمایت محدود ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گرڈ میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے اہم سرمایہ کاری اور اسٹیک ہولڈرز کے مابین تعاون ضروری ہے تاکہ قابل تجدید توانائی کی پیداوار ایڈجسٹ کرنے کے لیے گرڈ کو اپ گریڈ اور وسعت دی جائے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ اہداف، دورانیہ اور کوئلہ سے باہر نکلنے کے لیے شعبے سے متعلق حکمت عملی کے لیے توانائی منتقلی کا جامع منصوبہ وضع کرنے کی ضرورت ہے جو کوئلے سے جان چھڑانے، قابل تجدید توانائی اور بجلی کے گرڈز کی طرح بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور فعال کرنے کے لیے لازمی ہے۔
مذکورہ پلان میں اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور ماحولیاتی، سماجی اور اقتصادی غور و فکر کو مدِنظر رکھنا چاہیے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا اعتماد، سپورٹ، قابل تجدید توانائی کے آلات اور ٹیکنالوجیز کی لاگت میں کمی اور مقامی پیداوار کی حوصلہ افزائی کے لیے درمیانی سے طویل مدتی پالیسی اور ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کوئلے کے خاتمے سے ان خطوں پر سماجی و اقتصادی اثرات پڑیں گے جو کوئلے کی کان کنی اور توانائی کی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں، متاثرہ کارکنوں اور کمیونٹیز کے لیے منصفانہ منتقلی یقینی بنانا ضروری ہے، جس میں دوبارہ ہنرمندی اور تربیت کے پروگرام، متبادل شعبوں میں ملازمت کے مواقع اور سماجی تحفظ کے اقدامات شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے 2030 تک بجلی کی پیداوار کا 60 فیصد حصہ قابل تجدید ذرائع کے ساتھ ساتھ پن بجلی سے حاصل کرنے کا ہدف رکھا ہے، اس ہدف کے لیے 2030 تک 50 ارب ڈالر اور 2040 تک 80 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی، آئندہ برسوں میں 12 گیگا واٹ سے زیادہ پن بجلی کی توقع ہے جس کے لیے تقریباً 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے نے کہا ہے کہ سماجی اور ماحولیاتی فوائد اور گرین روزگار کے ساتھ اخراج کی بچت کوئلے کی تیز رفتار خاتمے سے متوقع ہے، توقع ہے کہ اس سے سب سے زیادہ آلودگی والے علاقوں میں پانی کا معیار بہتر بنانے اور زیرِ زمین پانی کی آلودگی کم کرنے میں مدد ملے گی۔