• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:03pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 5:12pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:03pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 5:12pm

ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی میں تبدیلیوں کی تجویز

شائع June 2, 2024
— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

گزشتہ ماہ وفاقی کابینہ کو بھیجے گئے ابتدائی مسودے پر سیاسی جماعتوں اور ڈیجیٹل حقوق کے رہنماؤں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد، شکایت کے اندراج کے عمل کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مجوزہ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈی آر پی اے) میں کچھ تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم شہبازشریف نے 20 مئی کو اس معاملے کو حل کرنے کے لیے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، یہ کمیٹی کابینہ سے منظوری لینے سے پہلے مجوزہ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کے حتمی مسودے پر اتفاق رائے پیدا کرے گی۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مسودے میں کی گئی کچھ تبدیلیوں کے ذریعے کسی بھی سوشل میڈیا مواد کے خلاف شکایت درج کرانے کے عمل کو ہموار کرنا شامل ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ ان تجاویز میں شامل کیا گیا ہے ’صرف متاثرہ شخص ہی شکایت درج کراسکتا ہے اور اس بات کا تعین کرنے کے لیے میکنزم ہونا چاہیے کہ آیا شکایت کنندہ متاثرہ شخص تھا یا نہیں۔

اس کے علاوہ اس بات کا تعین بھی پہلے سے کیا جانا چاہیے کہ آیا درج کی گئی شکایت، درخواست گزار کے حقوق کی خلاف ورزی میں شمار ہوتی ہے یا نہیں۔

کمیٹی کے ارکان نے ڈان کو بتایا کہ کچھ سخت شقوں پر تنقید کے بعد، یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسودہ کو واپس آئی ٹی کی وزارت کو بھیج دیا جائے گا تاکہ اس میں توازن پیدا ہو اور مجوزہ ڈی آر پی اے کے معاملات میں مزید شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔

کمیٹی کے ایک رکن نے کہا، ’ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ نفرت انگیز تقریر، بچوں کے ساتھ بدسلوکی، ہراساں کرنے، تشدد پر اکسانے یا ریاست مخالف سرگرمیوں کو ہوا دینے کے لیے آن لائن ٹولز سب سے مؤثر اور آزاد ذریعہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس چیز کو اب روکنا ہوگا، لیکن اس کے ساتھ ہی کسی بھی قانون میں حکام کو سیاسی انتقام کے لیے آزادی نہیں ملنی چاہیے اور نہ ہی انہیں احتساب سے بالاتر اختیارات دینے چاہئیں۔

وزارت آئی ٹی نے مجوزہ تبدیلیوں کے بعد مسودہ کمیٹی کو واپس بھجوا دیا تاہم سیاسی مصروفیات اور وفاقی بجٹ کی تیاریوں کے باعث اب تک اس پر بحث نہیں ہوسکی۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ہفتے کے روز ایک نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے مواد کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، سوشل میڈیا اصولوں اور اخلاقیات کے احترام اور تحفظات کے بغیر بڑی حد تک بے لگام تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا بھی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ ان سے متعلق ضوابط ہیں، لہذا سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کو روکنے کے لیے کچھ قوانین ہونے چاہیے۔

مجوزہ ’ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی(ڈی آر پی اے)، پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ2016 (پیکا) کی جگہ لے گی، لیکن نئی اتھارٹی کا قیام پیکا میں ترامیم کے ذریعے کیا جا رہا تھا۔

اس کے ساتھ ہی، ’نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن اینڈ ایجنسی (این سی سی آئی اے) بھی مجوزہ (ڈی آر پی اے) کے تحت کام کرے گی۔

این سی سی آئی اے نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے مقاصد اور اختیارات کی جگہ لے لی ہے، لیکن این سی سی آئی اے پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت ڈی آر پی اے کے قائم ہونے کے بعد ہی فعال ہو گا۔

ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہا کہ میڈیا اور تفریحی مواد سماجی طور پر قابل قبول ہونا چاہیے، لیکن یہ ذمہ داری سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے انسٹاگرام، ٹک ٹاک، ایکس (سابقہ ٹویٹر)، یوٹیوب اور فیس بک پر بھی عائد ہوگی کہ وہ ایسے مواد کو بلاک کریں جو کسی بھی ملک کی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہو۔

دوسری جانب ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں نے مجوزہ اتھارٹی کے مسودے کی ’خفیہ نوعیت‘ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈیجیٹل اسپیس فریڈم کی سرگرم کارکن ہارون بلوچ نے کہا کہ متعدد کوششوں کے باوجود، وزارت آئی ٹی نے اسٹیک ہولڈر کے طور پر مسودہ تیار کرنے کے عمل کا حصہ بننے کی ان کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر مملکت برائے آئی ٹی شیزا فاطمہ، وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے آج تک مسودہ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کرنے سے متعلق کسی سوال کا جواب تک نہیں دیا۔

تاہم، وزارت آئی ٹی کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ یہ مسودہ جلد ہی ایک عوامی دستاویز بن جائے گا کیونکہ اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا اور دونوں ایوانوں کی قائمہ کمیٹیاں اس پر بحث کریں گی، کئی مراحل کے بعد جب وفاقی کابینہ اس کی منظوری دے گی تو مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، تاہم بجٹ اجلاس کے دوران پارلیمنٹ میں کوئی اور ایجنڈا نہیں لیا جاسکتا۔

خیال رہے کہ 9 مئی کو سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے پیکا ایکٹ 2016 میں ترمیم کی منظوری دے دی تھی۔

پیکا ایکٹ 2024کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن ایجنسی کے قیام کی منظوری بھی دے گئی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نیا تجویز شدہ پیکا بل 2024 کابینہ کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا، پیکا قانون ترمیمی بل کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 3 جولائی 2024
کارٹون : 2 جولائی 2024