کراچی کی بجلی اور پنجاب
پانی اور توانائی کی سینیٹ کمیٹی کا خیال ہے کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) کو اگر دوبارہ قومی ملکیت بنا لیا جاۓ تو یہ بہترین قدم ہوگا-
ناصرف یہ بلکہ انکا یہ بھی خیال ہے کہ نئی انتظامیہ کی طرف سے برطرف کے گۓ ملازمین کو دوبارہ رکھا جاۓ اور جتنی مدّت یہ ملازمت سے باہر رہے، انکو اتنی مدّت کی تنخواہ دیا جانا ایک زبردست کام ہوگا-
اس رپورٹ پر غور کریں، جیسا کہ اس اخبارکے مطابق، ان سفارشات کو پینل نے منظور کیا اور اس پر ووٹنگ کی، اس میں یہ بحث کی گئی ہے کہ حکومت کو 'کے ای ایس سی' واپس لےلینا چاہیے اور لیبر یونین کو پھر سے بحال کردینا چاہیے-
مجھے غلط نہ سمجھے گا! کے ای ایس سی، میں کیا چل رہا ہے اس حوالے سے میرے اپنے خدشات ہیں، جو میں جلد شیر کروں گا- لیکن اس دوران اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جس قسم کی ادھ کچی تنقید سینیٹ پینل نے اختیار کر رکھی ہے اس سے بہتری کی بجاۓ نقصان زیادہ ہونے کی توقع ہے کیوں کہ یہ توانائی کے اصل مسائل کی طرف سے ہٹا رہے ہیں-
مثال کے طور پر اس بجلی کا معاملہ لے لیں جو کے ای ایس سی، نیشنل گرڈ سے خریدتی ہے- اس خریداری کا اختیار اس معاہدے کے تحت دیا گیا تھا جس میں یہ یوٹیلٹی پرائیویٹآئز کی گئی تھی- اس خریداری نے کئی سالوں سے شمال تک ہمارے ہم وطنوں کی ناراضگی اور لعنت ملامت مول لے رکھی ہے-
دلیلیں کچھ اس طرح کی دی جاتی ہیں: حکومت کراچی کو اتنی بجلی دے دیتی ہے کہ پنجاب کے لئے کچھ نہیں بچتا، یعنی پنجاب میں لوڈشیدڈنگ ہو رہی ہے جبکہ کراچی والے لامحدود فراہمی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں-
یعنی فرض کر لیا جاۓ کہ کراچی نیشنل گرڈ سے بجلی حاصل کرنے کا حقدار نہیں ہے- اب سوال یہ ہے، کہ کیوں نہیں؟ اگر یوٹیلٹی کو پرائیویٹائز کر دیا گیا ہے تو کیا ہوا؟ اسے ملک کی دیگر یوٹیلٹیز کی طرح گرڈ سے بجلی خریدنے کا حق کیوں نہیں ہے؟
اس بحث کی اگلی تکرار میں یہ کہا جاۓ گا کہ 'کے ای ایس سی' بجلی خریدتی نہیں بلکہ لے لیتی ہے اور اس کی ادائیگی بھی نہیں کرتی- وہ بتائیں گے، واجب الادا رقم ستر بلین روپے سے تجاوز کر گئی ہے-
جذبات کو بھڑکانے کے لئے یہ خیال اچھا ہے- اعدادوشمار بڑے ہیں، اور اس دلیل کے پس پردہ یہ اشارہ فروغ پا رہا ہے کہ 'کے ای ایس سی'، کے حکومت میں اعلیٰ سطح پر گہرے اورخفیہ رابطے ہیں جو اسے نیشنل گرڈ سے مفت بجلی فراہم کرتے ہیں پھر یہی مفت بجلی 'کے ای ایس سی' اپنی مصنوعات بنا کر صارفین کو فروخت کر دیتا ہے-
ظاہر ہے یہ بالکل غلط ہے-
حقیقت میں کے ای ایس سی اس لئے ادائیگی سے منحرف ہے کیوں کہ وفاقی گورنمنٹ کی طرف، کے ای ایس سی، کی اتنی ہی رقم ٹیرف ڈیفرنشیل سبسڈی کی شکل میں واجب الادا ہے، جس کی ادائیگی کے لئے گورنمنٹ کے پاس بھی اتنے فنڈز نہیں ہیں- چناچہ کے ای ایس سی، حکومت سے کہتی ہے کہ 'آپ ہمارے مقروض ہیں اور ہم آپ کے، تو جو رقم دونوں طرف واجب الادا ہے اسے ایڈجسٹ کر لیتے ہیں، اور معاملہ ختم کرتے ہیں'-
کچھ بنیادی حقائق ہمیں اس تنازعہ کو سمجھنے میں مدد دیں گے- کے ای ایس سی، نیشنل گرڈ سے کم و بیش 7.5 لاکھ میگا واٹ گھنٹوں کی بجلی خریدتی ہے- اور خود اپنے سسٹم سے آٹھ لاکھ یونٹس سے تھوڑا کم پیدا کرتی ہے- 15.5 ملین یونٹس کا ایک تہائی حصّہ ضائع ہو جاتا ہے اور تقریباً دس ملین یونٹس 2.5 ملین کلائنٹ بیس صارفین کو فروخت کر دیے جاتے ہیں-
ان اعدادوشمار کا اندرون ملک ڈسٹربیوشن کمپنیوں سے بھی موازنہ کیا جا سکتا ہے- مثال کے طور پر، لاہور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن، نیشنل گرڈ سے سولہ لاکھ یونٹس خریدتا ہے اور اس میں سے چودہ لاکھ یونٹس یہ اپنے 3.5 لاکھ سے تھوڑا اوپر کلائنٹ بیس صارفین میں تقسیم کر دیتا ہے- اب آپ حساب کر لیں- ہر یوٹیلٹی جتنے مجموعی یونٹس فروخت کرتی ہے وہ لیں اسے صارفین کی تعداد سے تقسیم کریں، آپ کو ہر علاقے میں فی کس بجلی کی کھپت مل جاۓ گی- اور آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ یہ سب تقریباً برابر ہی ہیں-
تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک علاقے میں تو بےپناہ لوڈشیدڈنگ ہو رہی ہے جبکہ دوسرے علاقے میں صورتحال بہتر ہے؟ ممکن ہے شاید دوسرے علاقے کا انتظام پہلے سے بہتر ہو؟
کراچی میں بھی بہت سی ایسی جگہیں ہیں جہاں بڑے پیمانے پر لوڈشیدڈنگ ہوتی ہے، لیکن مسئلہ کو ایک جگہ تک ہی محدود رکھا جاتا ہے اور ایسے علاقوں میں جہاں وصولی مشکل ہوتی ہے- اس طرح پورے شہر کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، بشرطیکہ کوئی ناموافق واقعہ غیرمتوقع کمی کا سبب نہ بن جاۓ، جیسے ایک بڑے گیس فیلڈ میں بندش کی وجہ سے اچانک فراہمی رک جاۓ-
لیکن کے ای ایس سی میں لائن نقصانات کی زیادہ شرح کا کیا کیا جاۓ؟ یہاں تک کہ، دس فیصد لائن نقصان (جسکا لیسکو خود دعویٰ کرتا ہے) کے ساتھ بھی کراچی میں فی صارف بجلی کی دستیابی، لاہور کے مقابلے میں بہت زیادہ نہیں ہے-
کیوں نہ 'کے ای ایس سی' کو اپنی خود کی بجلی بنانے دی جاۓ تاکہ اضافی 7.5 لاکھ یونٹس باقی ماندہ ملک کے استعمال کے لئے فارغ ہو جائیں؟ بالکل یہ ممکن ہے، بس آپ کو سندھ سے اندرون ملک جانے والی گیس، کراچی کو فراہم کرنا ہوگی-
ذرا تصور کریں اگر تمام صوبے یہ اعتراض کرنا شروع کر دیں کہ انہیں یہ پسند نہیں کہ دیگر صوبے، ان کے دائرہ اختیارمیں تیار ہونے والی اشیاء کا استعمال شروع کردیں- اس طرح، سندھ اپنی پوری گیس اپنے پاس رکھے، خیبر پختون خواہ، تربیلا ڈیم سے جتنی بجلی تیار کرتا ہے اپنے ہی پاس رکھے، اور آزاد کشمیر منگلا ڈیم سے جو بھی پیدوار ہوتی ہے اپنے پاس رکھ لے- تو پھر پنجاب کہاں جاۓ گا؟
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ملک دس ٹریلین روپے سے زائد جی ڈی پی پیدا کرنے کا قابل ہے اور اس کے پاس سات لاکھ سے زائد افرادی قوت بھی موجود ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وسائل میں شراکت کس طرح کی جاۓ، اس کا شعور موجود ہے- بھلے ہی کتنا متنازع سہی-
پانی، گیس، بجلی اور مالیاتی وسائل میں پورے ملک کا حصّہ ہے، اور اس بات پر بحث کرنا کہ ملک کے بعض حصّے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ حقدار ہیں غلط ہے-
یہ سچ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی تقسیم کے لئے ایک اصول پر مبنی نظام کی ضرورت ہے، پانی اور مالیاتی وسائل کے معاملے میں اس طرح کے نظام، تازہ ترین این ایف سی ایوارڈ اور واٹر شیئرنگ ایکارڈ 1991 کی شکل میں پہلے ہی سے موجود ہیں-
لیکن مجھے اس بحث میں جس چیز سے اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ، کے ای ایس سی، کے حوالے سے جو اصل خدشات زیر بحث لانے کی ضرورت ہے انکی طرف سے ہماری توجہ ہٹ رہی ہے، جو اس نوک جھونک سے کہیں اہم ہے کہ کس کو کتنا حاصل ہو رہا ہے-
مگر اس پر مزید کسی اور وقت بات ہوگی-
مصنف بزنس جرنلسٹ ہیں-
ترجمہ: ناہید اسرار