• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

آئی ایم ایف نے صوبائی منصوبوں کیلئے وفاقی فنڈز کا استعمال ختم کرنے کا مطالبہ کردیا

شائع September 6, 2024
فوٹو: ڈان
فوٹو: ڈان

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ رواں مالی سال کے لیے اپنے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) پر نظرثانی کرتے ہوئے وفاقی وسائل کے ذریعے صوبائی منصوبوں کی مالی امداد بند کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقی اویس منظور سمرا نے جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کو آگاہ کیا کہ اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بجٹ میں مختص کیے جانے کے باوجود غیر اہم منصوبوں کے لیے فنڈز جاری نہیں کیے جائیں گے،

اجلاس کی صدارت سینیٹر قرۃ العین مری نے کی۔

اویس سمرا نے کمیٹی کو بتایا کہ پی ایس ڈی پی کے تمام منصوبوں کا جائزہ لینے کے بعد دسمبر تک آئی ایم ایف کو رپورٹ پیش کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف 2024-2025 کے لیے پی ایس ڈی پی کا جائزہ لینا چاہتا ہے اور صوبائی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 100 فیصد وفاقی فنڈنگ ​​کو مسترد کر دیا ہے۔

سیکریٹری نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ 37 ماہ کے لیے 7 بلین ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کا حصہ ہے جس پر فنڈ اور پاکستانی حکام کے درمیان 12 جولائی کو عملے کی سطح پر معاہدہ ہوا تھا، تاہم ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے اس کی منظوری ابھی باقی ہے۔

سوالوں کے جواب میں سیکریٹری نے کہا کہ 2024-2025 کے پی ایس ڈی پی میں پنجاب کے لیے 175 ارب روپے کے 66 منصوبے اور سندھ کے لیے 488 ارب روپے کے 64 منصوبے شامل ہیں۔

بلوچستان کے لیے 429 ارب روپے کے 111 اور خیبرپختونخوا کے لیے 72 ارب روپے کے 20 منصوبے ہیں۔

یہ بات اس وقت سامنے آئی جب سینیٹ کمیٹی نے پی ایس ڈی پی 2024-2025 کے لیے مختص فنڈز کی تقسیم کا جائزہ لیا، کمیٹی کو بتایا گیا کہ قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) اور پارلیمنٹ کی طرف سے اصل میں 14 کھرب روپے کی منظوری دی گئی تھی، تاہم پی ایس ڈی پی بجٹ کو مالیاتی رکاوٹوں کی وجہ سے 11 کھرب روپے کر دیا گیا ہے۔

بنیادی، غیر ملکی امداد سے چلنے والے، اور قریب قریب تکمیل کے منصوبوں کو ترجیح دیتے ہوئے پروجیکٹ کے لحاظ سے مختص میں ایڈجسٹمنٹ کی گئی۔

فنانس ڈویژن نے ترقیاتی فنڈز کے لیے ریلیز کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا، جس میں پہلی سہ ماہی کے لیے 15 فیصد، دوسری سہ ماہی کے لیے 20 فیصد، تیسری سہ ماہی کے لیے 25 فیصد اور چوتھی کے لیے 40 فیصد تقسیم کی وضاحت کی گئی۔

وزارت منصوبہ بندی نے پینل کو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ہر صوبے کو دیے گئے منصوبوں اور فنڈز کی کل تعداد کے بارے میں بتایا۔

کمیٹی نے اس وقت اپنائے جانے والے فنڈ مختص کرنے کے عمل کی پیچیدگی پر تشویش کا اظہار کیا، اس نے وزارت کو ہدایت کی کہ پی ایس ڈی پی 2024-2025 کے تحت فنڈز کی سہ ماہی تقسیم کی تفصیلات صوبہ وار بنیاد پر فراہم کی جائیں۔

پایئڈ کی چانچ پڑتال

سینیٹ کمیٹی نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے اندر مالیاتی ناکارہیوں کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کی، باڈی نے پائیڈ کے ایڈوائزری بورڈ کی ایک سفارش کا جائزہ لیا جس میں انسٹی ٹیوٹ کو تحلیل کرنے کی تجویز دی گئی تھی، اس میں کہا گیا کہ پالیسی ریسرچ کے لیے غیر ملکی کنسلٹنٹس کو استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے مقامی محققین کی ضرورت کم ہو رہی ہے۔

اس کے جواب میں کمیٹی نے ان محققین کو ہٹانے کی ہدایت کی جنہوں نے گزشتہ ایک دہائی میں ایک بھی تحقیقی مقالہ شائع نہیں کیا۔

مزید برآں، نئے قواعد تجویز کیے گئے، جس میں یہ لازمی قرار دیا گیا کہ محققین کو اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے ہر سال کم از کم ایک مقالہ شائع کرنا چاہیے۔

سینیٹر قرۃ العین مری نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ 25 سال سے زیادہ عرصے سے کام کرنے والے کچھ محققین نے کوئی تحقیقی مقالہ تیار نہیں کیا، نتیجتاً، کمیٹی نے ریسرچ آؤٹ پٹ رولز پر نظر ثانی کی تجویز پیش کی۔

اس نے کنٹریکٹ ملازمین کی کارکردگی کے جائزے پر بھی توجہ دی، یہ شرط رکھی کہ توسیع ملازم کی شراکت اور ضرورت کے جائزے پر مبنی ہونی چاہیے۔

کراچی میں پاکستان اسپورٹس بورڈ (پی ایس بی) کے کوچنگ سینٹر میں بین الاقوامی معیار کے سوئمنگ پول کی تعمیر کے لیے پی ایس ڈی پی منصوبے کا جائزہ لیتے ہوئے کمیٹی نے فنڈز کے مؤثر استعمال پر زور دیا۔

کمیٹی نے پنجاب کے ضلع لیہ کے ڈپٹی کمشنر کی اجلاس میں عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا۔

انہیں 1200 میگاواٹ کے سولر پاور پروجیکٹ کے لیے زمین کے حصول کی لاگت پر بریفنگ کے لیے اجلاس میں شرکت کے لیے کہا گیا تھا۔

کمیٹی نے وزارت کو ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں تمام متعلقہ حکام کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024