• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

علی امین گنڈاپور کا افغانستان سے براہ راست مذاکرات کا بیان وفاق پر حملہ ہے، خواجہ آصف

شائع September 12, 2024
فائل فوٹو:ڈان نیوز
فائل فوٹو:ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا افغانستان سے براہ راست مذاکرات کا بیان وفاق پر حملہ ہے۔

خواجہ آصف نے قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شیر افضل مروت نے اپنی تقریر کے اختتام پر جو باتیں کیں وہ بھی اچھی ہیں، لیکن جب وہ مجھے اسمبلی میں آکر ملے تو ان کی پارٹی ان کے پیچھے پڑ گئی، یہاں پر یہ ماحول بن گیا ہے کہ اگر کوئی اپوزیشن رکن سرکاری عہدیدار سے ملے توشک کیاجاتاہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور حکومت میں اپوزیشن کو دیوار سےلگایاگیا، پی ٹی آئی دور حکومت میں اپوزیشن کو صعوبتوں کاسامنا کرنا پڑا، قومی اسمبلی کے ماحول کو بہتر رہنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ ماحول کو خود خراب کیا جارہا ہے، آج وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کابیان آیا ہے کہ ہم خود افغانستان سے مذاکرات کریں گے، وزیراعلیٰ نےکس حثیت میں افغانستان سے مذاکرات کا عندیہ دیا، یہ وفاق کے اوپر براہ راست حملہ ہے، کوئی صوبہ کسی ملک سے براہ راست مذاکرات نہیں کر سکتا، جس راستے پر وزیر اعلیٰ خود چل رہے ہیں اور ساتھ اپنی پارٹی کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں یہ اس ملک کے لیے زہر قاتل ہے، ملک کی سلامتی کو وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے داؤ پر لگایا ہے۔

اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے جو روایت رکھی ہے اس پر مستقبل میں بھی عمل ہونا چاہیے، اس روایت کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔

آرٹیکل 6 کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں واحد ممبر ہوں اس پارلیمنٹ کا جس پر یہ آرٹیکل لگا تھا، میں نے ایف آئی اے کے دفتر میں پیشیاں بھگتی، یہاں پر اس پوری کابینہ کے لوگ بیٹھے ہیں جنہوں نے مجھ پر آرٹیکل 6 لگایا۔

انہوں نے ایوان کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ماضی میں پروڈکشن آرڈر نہ جاری کرکے آئین اور قانون کی تعظیم نہیں کی، اس کو محترم نہیں سمجھا، میں یہ باتیں تلخی کے لیے نہیں کر رہا بلکہ یاد دہانی کے لیے کر رہا ہوں، ہم سیاست دانوں کی یاداشت بڑی کمزور ہوتی ہے، جناب اسپیکر اگر یہ ایوان ہم نے چلانا ہے تو جو روایت ہم نے قائم کی ہے اس پر عمل ہونا چاہیے، اسد قیصر صاحب نے جو روایت قائم کی اس پر عمل نہیں ہونا چاہیے۔

خیال رہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے گزشتہ روز افغانستان سے مذاکرات کے لیے اپنا وفد بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔

علی امین گنڈاپور نے وفد بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذاکرات کرکے جو خون بہہ رہا ہے اسے روکیں گے، انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ ایپکس کمیٹی میں متعدد بار وفد بھیجنے کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔

قبل ازیں، اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے جاری پروڈکشن آرڈرز پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار 10 اراکین کو پارلیمنٹ پہنچایا گیا۔

ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ کی زیر صدارت شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جن پی ٹی آئی اراکین کو اسمبلی میں پہنچایا گیا ہے، ان میں شیخ وقاص اکرم، زین قریشی، ملک اویس، عامر ڈوگر، احمد چٹھہ، زبیر خان، سید احد علی شاہ، سید نسیم علی شاہ، شیر افضل مروت اور یوسف خان شامل ہیں۔

پی ٹی آئی کے گرفتار 10 ارکان کو قائمقام سارجنٹ ایٹ آرمز فرحت عباس کے حوالے کیا گیا۔

گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی نے گرفتار پی ٹی آئی اراکین پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا حکم دیا تھا اور انہیں پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے پی ٹی آئی کے گرفتار رہنماؤں شیر افضل مروت، ملک محمد عامر ڈوگر، محمد احمد چٹھہ، مخدوم زین حسین قریشی، شیخ وقاص اکرم، زبیر خان وزیر، اویس حیدر جھکڑ، سید شاہ احد شاہ ، نسیم علی شاہ اور یوسف خان کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کی جانب سے اتوار کو پی ٹی آئی کے جلسے کے بعد متعدد رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاتھ مروڑ کر ایکسٹینشن کرائی گئی تھی، مولانا فضل الرحمٰن

قومی اسمبلی اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کا نکتہ اعتراض پر اظہار خیال ہوئے کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں ایم این ایز سے ہونے والے واقعہ کی مذمت کرتا ہوں، پارلیمنٹ کا واقعہ اپوزیشن کے ساتھ نہیں پوری پارلیمنٹ کے ساتھ ہوا ہے، اس واقعے پر احتجاجاً پارلیمنٹ کو تین دن کیلئے بند کیا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان، خیبرپختونخوا کی سیکورٹی صورتحال پر ہمیشہ آواز اٹھائی ہے، ملک کی وحدت اور یکجہتی عزیز ہے، یہ ملک ہمارا گھر ہے اور ہم اس ملک کی حفاظت کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سیکورٹی صورتحال مخدوش ہے، میں پوچھتا ہوں حکومت کی رٹ کہاں پر ہے؟ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں حکومت کی رٹ نہیں ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے مزید کہا کہ وہ کسی ادارے میں ایکٹینشن کی حمایت نہیں کریں گے، اپوزیشن میں ہیں اور رہیں گے، پارلیمنٹ ملک کا سپریم ترین ادارہ ہے، اگر ایکسٹینشن بنتی ہے تو پھر سب سے زیادہ پارلیمنٹ کی بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاتھ مروڑ کر ایک ایکسٹینشن کرائی گئی تھی،کیا ایسا ممکن نہیں آئینی امور کیلئے الگ عدالت بنا دی جائے، تبدیلی لانی ہے تو صحیح معنوں میں لائی جائے، پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہو گا،پارلیمنٹ عدلیہ اور فوج سے سپریم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ پر بات کرو تو توہین عدالت لگ جاتی ہے، کسی ادارے پر تنقید نہیں کریں گے لیکن کوئی اراکین پارلیمان کی تذلیل نہ کرے، تعیناتی کیلئے صرف سنیارٹی نہیں اہلیت بھی دیکھی جانی چاہیے، مزید کہا کہ جوڈیشل کونسل اور پارلیمانی پارٹی چیف جسٹس کا انتخاب کرے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ اگر اپنی حدود کا احترام کرے تو فوج اور عدلیہ کو بھی اس کا احترام کرنا ہو گا،حکومت اصلاحات کے حوالے سے اپوزیشن کو اعتماد میں لے۔

پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر اسپیکر قومی اسمبلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 8 ستمبر کو سنگجانی میں ہمارے اتحاد کا جلسہ ہوا تھا،اس سے پہلے بانی پی ٹی آئی نے جلسہ منسوخ کیا، پولیس والوں نے بتایا کہ ماحول خراب کرنے والے ہمارے لوگ نہیں ہیں، ہم وقت پر جلسہ ختم کرنے کیلئے تیار تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر رکاوٹیں نہ ڈالتے تو جلسہ وقت پر ختم ہوجاتا، اگلے دن ہمارے اوپر پرچے شروع ہوگئے، ملک امتیاز کا نام بھی پرچے میں شامل تھا لیکن وہ ایک سال پہلے (ن) لیگ میں شامل ہوچکے تھے اور 6 مہینے قبل ان کا انتقال ہو چکا ہے۔

رانا ثنا اللہ کے ساتھ جو ہوا ہمیشہ اس کی مذمت کی، شیر افضل مروت

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ تین چار دنوں میں کچھ اچھی باتیں بھی ذہن میں سما گئی ہیں، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے نفرت کے ماحول میں کھانے کا اہتمام کیا اور ہمیں سنا، پارلیمنٹ کے ساتھ جو ہوا شاید یہ نہ ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کے ساتھ جو ہوا ہمیشہ اس کی مذمت کی، خواجہ آصف اور عطا تارڑ کی طرف سے پی ٹی آئی سے نفرت کی جاتی ہے، قسم اٹھاتا ہوں اگر ان کو کچھ کہا جائے گا تو وہ ہاتھ روکوں گا، اس دن میں نے بات کی لیکن موقع نہ ملا، میں نے ساتھیوں کو کہا کہ ہمارے پاس گارڈز ہیں میدان کار زار بنا لیتے ہیں۔

رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عامر ڈوگر نے کہا کہ یہ ہماری گرفتاری کے لیے نہیں آئے، بہر حال مجھے گرفتار کیا اور لے گئے، میرے پاس کلاشنکوف اور پستول تھی ابھی تک کچھ بھی واپس نہیں کیا گیا۔

شیر افضل مروت نے کہا کہ یہ جج جب سے آیا ہے یہی کام کر رہا ہے، بانی چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کے ریمانڈ اس جج نے نہیں دیے، رات کو اہلکار آئے اور مجھے ساڑھے 9 بجے گاڑی میں بٹھایا اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر مجھے لے گئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہاں نقاب پوش بیٹھے ہوئے تھے اور اس نقاب پوش کو میں نے پہچان لیا، اس نقاب پوش نے پستول نکالا اور کہا کہ اگر کوئی بھاگ جاتا ہے تو اسے مار دیا جاتا ہے۔

اسد قیصر کا اظہار خیال

اجلاس کے دوران اسد قیصر نے پوری پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تمام پارٹیز نے 9 اور 10 تاریخ کی درمیانی رات کے ہونے والے واقعے پر یکجہتی کا اظہار کیا، پارلیمنٹ اس ملک کا سب سے مقدس اور قابل احترام ادارہ ہے، یہ پارلیمنٹ جیسی بھی ہے ہمیں اس کا احترام ہے، آئینی ترمیم کے لیے ہمارے اراکین کو خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سعد اللہ بلوچ کو بازیاب کرانے کے لیے ان کی فیملی کو اغوا کیا گیا، زور زبردستی سے لانے والے اس قانون کی کیا حیثیت ہوگی، کیا چیف جسٹس اس قسم کے قانون کے بعد اپنے ایکسٹنشن کے لیے تیار ہوں گے؟ آج اگر وہ فائدہ لینے سے انکار کرے تو کہیں گے کہ بڑا قدم اٹھایا۔

قبل ازیں آج ڈپٹی اسپیکر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں سوالات کے وقفے کے دوران وفاقی وزیر قانون و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب اسمبلی نہ ہو تو آرڈیننس پیش کیا جاسکتا ہے، جو آرڈیننس نگران حکومت کے دور میں آئے وہ ایوان میں پیش کیے گئے، اب ایوان کی مرضی ہے کہ ان کو اپنائیں یا مسترد کردیں،حکومت کا ان آرڈیننس سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایوان کا اختیار ہے کہ آرڈیننسز میں ترمیم کرے منظور کرے یا مسترد کرے۔

فوجداری قوانین میں بڑے عرصے سے اصلاحات نہیں ہوئیں، وزیر قانون

اعظم نذیر تارڑ نے ایوان کو بتایا کہ فوجداری قوانین میں بڑے عرصے سے اصلاحات نہیں ہوئیں ہیں، ہم نے جامع پیکج مرتب کیا ہے جو کابینہ میں جارہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر درج کرنا آسان جبکہ نکالنا مشکل کام ہے، چالان جمع کرانے کے وقت پر کام ہورہا ہے،مزید کہا کہ ٹرائل کے وقت کا تعین بھی کیا جارہا ہے اور اس کو بل کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ اعلیٰ عدلیہ کی تعداد بڑھانے کی بات ہو تو تنقید شروع ہو جاتی ہے، لوگ بری ہونے تک آٹھ آٹھ سال گزار چکے ہوتے ہیں، کوئی قانون جرگہ کا فیصلہ مسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اعلیٰ عدلیہ کو کالونیل دور کے طرز پر چلا رہے ہیں، ایسی قانون سازی کرنی چاہیے کہ عام لوگوں کو فائدہ ہو۔

اس سے قبل وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری ماسک پہن کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے جس پر اپوزیشن ارکان نے انہیں کورونا ہونے کے خدشے کا اظہار کیا۔

وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر نشست سے کھڑے ہوئے تو انہوں نے ماسک لگا رکھا تھا، اویس لغاری نے کہا کہ مجھے کووڈ کی علامات ہیں لیکن اس کے باوجود میں ایوان کے احترام میں موجود ہوں اور اراکین کے تمام سوالات کے جوابات دینے کے لیے تیار ہوں۔

اس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ کیا آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں؟

وزیر توانائی نے بتایا کہ انہیں علامات ہیں لیکن ٹیسٹ مثبت نہیں ہے، ممبر قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ نے کہا کہ ایسا نہ کریں آپ ٹیسٹ کرائیں۔

اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے وزارت توانائی کے سوالات ملتوی کرا دیے اور اویس لغاری ایوان سے روانہ ہوگئے۔

وفاقی وزیر مصدق ملک نے وقفہ سوالات پر جوابات دیتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ ہم پیٹرول ڈالر میں خریدتے ہیں اور بیچتے روپے میں ہیں، جب سے حکومت آئی ہے ڈالر اور روپے کی قدر میں توازن آیا ہے، مئی سے لے کر آج تک تیل کہ قیمت میں47 روپے کمی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ تیل کی قیمتوں کی کمی کا کریڈٹ نہیں لینا چاہتے، ایرانی تیل کی اسمگلنگ بتدریج کم ہورہی ہے، اسمگلنگ کو ریگولرائز کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے، ہمارے پاس تیل ذخیرہ کرنے کی گنجائش 21 دن کی ہے۔

سوالات کا جواب دیتے ہوئے مصدق ملک نے کہاکہ ہمارے گیس کے ذخائر میں دن بدن کمی ہورہی ہے، اگر اضافی کنکشن دیں گے تو گیس نہیں ملے گی، درآمدی گیس جس قیمت پہ آتی ہے وہ آپ خریدنے کیلئے تیار نہیں ہیں، پچھلی حکومت نے گیس کنکشنز پہ پابندی لگائی لیکن یہ درست اقدام ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024