غزہ کی پانچ منزلہ رہائشی عمارت پر اسرائیلی فوج کی بمباری، 100 افراد شہید
غزہ کے رہائشی علاقے میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تقریباً 100 افراد شہید اور درجنوں لاپتا ہو گئے جہاں حملے میں بڑی تعداد میں لوگوں کے زخمی ہونے کے سبب شہدا کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق اس اسرائیلی حملے میں بڑی تعداد میں بچے بھی شہید ہوئے جسے امریکا نے ہولناک قرار دیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے یہ بمباری ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب غزہ میں امداد فراہم کرنے والی اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کی ایجنسی کو صہیونی ریاست نے کام کرنے سے روک دیا تھا جس کی اسرائیلی اتحادیوں سمیت عالمی برادری نے شدید مذمت کی تھی۔
اسرائیل کی جانب سے پانچ منزلہ عمارت کو نشانہ بنایا گیا جس کے ملبے سے ریسکیو کا عملہ لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے میں مصروف ہے، جبکہ سڑک پر جابجا کمبل سے ڈھکی ہوئی لاشیں قطار میں رکھی ہوئی ہیں۔
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسال نے ’اے ایف پی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابونصر کے خاندانی گھر پر حملے میں شہدا کی تعداد 93 ہو گئی ہے جبکہ 40 لوگ لاپتا اور درجنوں زخمی ہیں۔
اسرائیل کی فوج نے کہا کہ وہ حملے کے حوالے سے رپورٹس پر غور کر رہے ہیں جہاں اس سے قبل اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ افواج نے غزہ میں حماس کے 40 جنگجوؤں کو شہید کردیا جبکہ کارروئی میں چار فوجی بھی ہلاک ہوئے۔
30 سالہ ربیع الشنداگلی نے کہا کہ دھماکا رات کو ہوا اور میں نے پہلے سوچا کہ یہ گولہ باری ہے لیکن جب میں طلوع آفتاب کے بعد باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ لوگ ملبے کے نیچے سے لاشوں، اعضا اور زخمیوں کو نکال رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ زخمیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں اور لوگ زخمیوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہاں کوئی ہسپتال یا مناسب طبی امداد میسر نہیں۔
واشنگٹن نے اسرائیلی حملے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ ایک ہولناک واقعہ ہے جس کے خوفناک نتائج برآمد ہوئے ہیں، ہم نے اسرائیلی کی حکومت سے اس حوالے سے دریافت کیا ہے۔
اسرائیل کی فوج 6 اکتوبر سے شمالی غزہ بالخصوص جبالیہ، بیت لاہیا اور بیت حنون کے اطراف وسیع پیمانے پر فضائی اور زمینی حملے کر رہی ہے جہاں ان کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کا مقصد حماس کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنا ہے۔
گزشتہ سال 7 اکتوبر کو حماس کے کی کارروائی میں تقریباً 1200 اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ شروع کیا تھا جو 12 ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی جاری ہے۔
حماس کے زیرانتظام علاقے کی وزارت صحت کے اعدادوشمار کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی سے غزہ میں کم از کم 43 ہزار 61 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی پر پابندی کے بعد عالمی برادری کے غزہ کے حوالے سے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔
اسرائیل غزہ میں انسانی امداد کی تمام ترسیل کو سختی سے کنٹرول کرتا ہے اور گزشتہ سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی ایجنسی خطے میں تارکین وطن کو ضروری امداد، اسکول اور صحت عامہ کی سہولیات فراہم کر رہی تھی۔
اس پابندی پر امریکا سمیت اسرائیل کے کئی مغربی اتحادیوں نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔
میتھیو ملر نے اسرائیل کو انتباہ جاری کیا کہ غزہ میں انسانی امداد کی صورتحال میں بہتری نہ آئی تو امریکا، اسرائیل کو فراہم کی جانے والی فوجی امداد روک سکتا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ لندن کو اس پابندی پر شدید تشویش ہے جبکہ فرانسیسی وزارت خارجہ نے پارلیمنٹ سے منظور اس بل کو افسوسناک قرار دیا۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے کہا کہ اگر اسرائیلی قانون نافذ ہوا تو اس کے ’تباہ کن نتائج‘ برآمد ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو لکھے گئے خط میں کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت قابض طاقت کو اس مقبوضہ علاقے میں رہنے والے لوگوں کی مدد کے لیے میکانزم کو نافذ کرنا چاہیے۔
گوتریس نے لکھا کہ اگر اسرائیل ان ضروریات کو پورا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو سرگرمیوں کی اجازت دے اور اس میں سہولت فراہم کرے۔