پنجاب میں اسموگ کے باعث ایک کروڑ سے زائد بچے خطرے سے دوچار ہیں، یونیسیف
پاکستان میں عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے نمائندے عبداللہ فادل نے پنجاب کے شدید متاثرہ اضلاع میں 5 سال سے کم عمر ایک کروڑ سے زائد بچوں کو فضائی آلودگی کے سبب خطرے سے دوچار ہونے کے باعث فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے فوری اور وسیع تر اقدامات پر زور دیا ہے۔
گزشتہ ماہ صوبے میں اسموگ کو آفت قرار دیا گیا تھا جبکہ پنجاب کے بڑے شہروں میں بچوں کو آلودگی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اسکول 17 نومبر تک بند کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ اسموگ کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے لوگوں پر پارکوں، چڑیا گھروں، کھیل کے میدانوں اور عجائب گھروں میں جانے پر 17 نومبر تک پابندی عائد کی گئی ہے۔
پنجاب کے سات شہروں میں آج ریکارڈ کیا جانے والا ایئرکوالٹی انڈیکس 400 سے زائد تھا جبکہ کھیلوں کے سازوسامان کے لیے مشہور شہر سیالکوٹ میں فضائی معیار 774 تک ریکارڈ کیا گیا۔
اسلام آباد میں اقوام متحدہ فنڈ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق گزشتہ ہفتے لاہور اور ملتان میں ریکارڈ فضائی آلودگی کے باعث درجنوں بچوں سمیت متعدد افراد ہسپتالوں میں داخل ہوئے۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ فضائی آلودگی اتنی زیادہ ہے کہ اب یہ خلا سے بھی نظر آ رہی ہے۔’
بیان میں عبداللہ فادل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’ میں اس آلودہ اور زہریلی ہوا میں سانس لینے والے بچوں کی صحت کے حوالے سے انتہائی تشویش میں مبتلا ہوں۔’
ان کی جانب سے مزید کہا گیا کہ’ پنجاب کے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر ایک کروڑ سے زائد بچے اسموگ کے خطرے سے دو چار ہیں۔’
عبداللہ فادل نے کہا کہ’ فضائی آلودگی کے ریکارڈ سطح سے قبل پاکستان میں 5سال سے کم عمر 12 فیصد بچوں کی اموات ہوا کے خراب معیار کی وجہ سے ہوتی تھی۔’
انہوں نے کہا کہ ’ غیر معمولی اسموگ’ کے اثرات کا اندازہ کچھ وقت بعد ہوگا، تاہم ہم جانتے ہیں آلودگی کی مقدار میں دوگنا اور تین گنا اضافہ ہونے سے حاملہ خواتین اور خاص طور پر بچوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
عبداللہ فادل کا کہنا تھا کہ ’فضائی آلودگی سے بچے اس لیے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ ان کے پھیپڑے کمزور ہیں اور ان کی قوت مدافعت کم ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ’آلودہ ذرات بچوں کے پھیپڑوں اور دماغ کی نشونما پر بہت زیادہ اثر انداز ہوسکتے ہیں، آلودہ فضا میں سانس لینے سے دماغی ٹشوز متاثر ہوسکتے ہیں۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب حاملہ خواتین آلودہ فضا میں سانس لیتی ہیں تو ان کے بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ ان بچوں کا پیدائشی وزن بھی کم ہوسکتا ہے۔‘
انہوں نے حکام سے فوری طور پر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانے اور طویل مدتی حفاظت کے لیے آلودہ مادوں کے اخراج سے متعلق ضوابط کو مزید مضبوط بنانے کی درخواست کی۔