روس، افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے قریب پہنچ گیا
روس، افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی طرف ایک اور قدم آگے بڑھ گیا اور اس کی پارلیمنٹ نے ایک ایسے قانون کے حق میں ووٹ دے دیا جس سے طالبان کو ماسکو کی کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کی راہ ہموار ہوگی۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق روس کی انٹرفیکس نیوز ایجنسی نے بتایا کہ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں، ڈوما نے اس سلسلے میں تین ضروری بلز میں سے پہلے بل کی منظوری دے دی۔
فی الحال کوئی بھی ملک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا جس نے اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا جب امریکا کی زیر قیادت افواج نے 20 سال کی جنگ کے بعد افراتفری میں ملک سے انخلا کیا تھا۔
تاہم روس بتدریج طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کر رہا ہے، جس کے بارے میں صدر ولادیمیر پیوٹن نے جولائی میں کہا تھا کہ اب وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے اتحادی ہیں۔
ماسکو، افغانستان سے لے کر مشرق وسطیٰ تک کے ممالک میں موجود عسکریت پسند گروپوں کو اپنے لیے ایک بڑا سیکیورٹی خطرہ سمجھتا ہے، جہاں روس نے رواں ہفتے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ایک اہم اتحادی کھو دیا ہے۔
رواں سال مارچ میں مسلح افراد نے ماسکو کے باہر ایک کنسرٹ ہال میں ایک حملے میں 145 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جس کی ذمہ داری عسکریت پسند گروپ داعش نے قبول کی تھی۔ امریکی حکام نے کہا تھا کہ ان کے پاس انٹیلی جنس معلومات ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس حملے کی ذمہ دار گروپ کی افغان شاخ داعش خراسان (داعش کے) ہے۔
مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کو بین الاقوامی سطح پر وسیع پیمانے پر تسلیم کیے جانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ گروپ کا خواتین کے حقوق کے حوالے سے قدامت پسندانہ رویہ ہے۔ طالبان نے لڑکیوں اور خواتین کے لیے ہائی اسکول اور یونیورسٹیاں بند کر دی ہیں اور مرد سرپرست کے بغیر ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی قانون کی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔
افغانستان میں روس کی اپنی پیچیدہ اور خون آلود تاریخ ہے۔ سوویت فوجوں نے دسمبر 1979 میں ایک کمیونسٹ حکومت کو سہارا دینے کے لیے ملک پر حملہ کیا، لیکن مجاہدین کے خلاف ایک طویل جنگ میں وہ ناکام ہو گئے۔
سوویت رہنما میخائل گورباچوف نے 1989 میں اپنی فوج کو نکال لیا تھا، اس وقت تک تقریباً 15 ہزار سوویت فوجی ہلاک ہو چکے تھے۔