سزائے موت کے منتظر کال کوٹھری کے باسیوں کو نیا سال مبارک!

شائع January 1, 2025

یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قیدی بھی نئے سال کی خوشیاں مناتے ہیں بشمول سزائے موت کے ان قیدیوں کے جو کال کوٹھری میں اپنے آخری ایام گن رہے ہوتے ہیں۔

اب جب انسان کے ہاتھ میں پورے کرہِ ارض کو تباہ کرنے کی صلاحیت آچکی ہے تو گمان ہوتا ہے کہ تمام رنگ و نسل کے انسان کسی کال کوٹھری میں مقید ہیں۔ لگتا ہے جیسے ہم تختہ دار پر ہیں، کسی قیدی کی طرح وقت کے محتاج ہیں جبکہ ہمیں منصفافہ ٹرائل کا موقع بھی نہیں دیا گیا تھا۔

میں سی آئی اے کے سابق تجزیہ کاروں، دنیا بھر میں امریکی مشنز میں خدمات انجام دینے والے ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسران اور انتہائی قابل احترام امریکی پروفیسرز کے درمیان معمول کی بات چیت کا قریب سے مشاہدہ کررہا ہوں۔

یہ لوگ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کے حوالے سے غیر جانبدار ہیں۔ وہ سال 2024ء کا تجزیہ کررہے تھے اور سوچ رہے ہیں کہ 20 جنوری 2025ء کے بعد دنیا کیسی ہوگی۔

عالمی کشیدگیوں کے حوالے سے ان کی گفتگو، سنگین خطرات کی نشاندہی کرتی ہیں جس سے دنیا کے بہت سے باسی خوفزدہ ہیں لیکن زیادہ تر کو اس سنگینی کا اندازہ نہیں جبکہ بہت سے لوگ اس کے بارے میں جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہ انتہائی خطرناک آتش فشاں ہے جو کسی بھی وقت پھوٹ سکتا ہے۔ ان کے مطابق مغرب کی معاشی اور سیاسی حالات خراب ہیں جبکہ وہ روس، چین اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ تصادم کا خواہاں ہے۔

دوسری جانب مغرب کے بڑھتے ہوئے مخالفین کی تعداد کے پاس ایک معاشی ایجنڈا ہے جس کے تحت وہ ڈالر کے عالمی تسلط کو ختم کرسکتے ہیں۔

امریکی تجزیہ کاروں، پروفیسرز اور ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی افسران کا خیال ہے کہ امریکا کے اُکسانے پر یوکرین جنگ ہوئی بالخصوص اس وقت امریکا اس کا ذمہ دار بنا کہ جب نیٹو کو روس کی سرحدوں کے قریب لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک غلط فیصلہ یا چھوٹی سی غلطی سے ایٹمی تباہی آسکتی تھی۔ غزہ بھی ایک الگ خطرہ بنا ہوا ہے جہاں اسرائیل قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے، دائرہ کار کو شام کی سرزمین تک وسعت دے رہا ہے۔

صورت حال اس نہج پر آچکی ہے کہ سعودی عرب اور ایران معاملات پر بات چیت کرنے کے لیے سر جوڑ چکے ہیں۔ ان ممکنات سے زیادہ اہم ایک اور عنصر ہے جوکہ فی الحال پوشیدہ ہے۔ امکانات ہیں کہ برکس اتحاد کے بڑھتے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے ایک بڑا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔ ممکنہ طور پر یہ تنازع، یوکرین، ایران، غزہ، شام اور اسرائیل سے سر اٹھائے گا۔

چین جو بیلٹ اینڈ روڈ تجارت کے لیے پُرامن دنیا کا متمنی ہے، وہ جنگ یا کسی بھی تنازع کا حصہ بننے میں سب سے کم دلچسپی رکھتا ہے۔ لیکن اگر چین کو کسی تنازع میں دھکیلا جائے تو وہ اپنی پوری عسکری صلاحیتوں کے ساتھ جواب دینے کا اہل ہے۔ اعلیٰ امریکی تجزیہ کار کا یہی خیال ہے۔

اسرائیل کے پاس بالخصوص بنیامن نیتن یاہو کی قیادت میں، بڑی تباہی لانے کا کوئی خفیہ ایجنڈا ہے جبکہ وہ اس بات سے بھی بےفکر ہے کہ اس کے اقدامات ایٹمی تباہی لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

اسرائیل مسلسل ایران کو جنگ کے لیے اُکسا رہا ہے اور اس حقیقت کو اہمیت نہیں دے رہا کہ ایران کی روایتی فوجی صلاحتیں صہیونی ریاست کو برباد کرسکتی ہیں۔ اسرائیل کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے اسے اپنے انتہائی اقدامات میں استثنیٰ حاصل ہے۔

ان حالات میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے غیرفعال رہنے کے امکانات بھی کم ہیں۔ روس کے نئے تیار کردہ جوہری صلاحیت کے حامل ہائپرسونک اورشینک (Oreshnik) میزائل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اتنا تیز اور طاقتور ہے کہ یہ یورپ کے زیادہ تر حصے کو باآسانی تباہ کرسکتا ہے۔

اگر روس اپنے میزائل استعمال کرتا ہے تو نیٹو کی جوابی کارروائی بھی اتنی ہی تیز اور تباہ کُن ہوگی جس میں صرف واشنگٹن کے محض چند بنکرز ہی محفوظ رہ پائیں گے۔ متعلقہ امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق نیو کونز (نو قدامت پسندوں) کی وجہ سے یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں تشدد جاری رکھنے کی بائیڈن انتظامیہ کی جارحانہ حمایت متاثر ہوئی ہے۔ یہی نیو کونز ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے اور ان پر اثرانداز ہونے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

عسکری خسارے کا جائزہ لینے والے اسکاٹ رِٹر، امریکا کو ان اقدامات سے دور رکھنے کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن سے وہ جوہری خطرات مول لے سکتا ہے۔ انہوں نے کانگریس اراکین سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ کیا روس کے نئے اوریشنیک میزائل واقعی خطرہ ہیں یا روس ایک بلف کھیل رہا ہے؟ کانگریس اراکین نے انہیں بتایا کہ سی آئی اے کے خیال میں یہ بلف نہیں ہے لیکن مین اسٹریم میڈیا آدھا سچ بتا کر حقائق چھپا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بائیڈن بالخصوص ان کے گرد موجود نیو کونز، روس کے ساتھ ایٹمی جنگ کا خطرہ مول لینے کے لیے بھی تیار تھے۔

کانگریس اراکین پریشان تھے کہ جو بائیڈن ان سے مشاورت کیے بغیر اس طرح کا قدم اٹھا سکتے تھے۔ پورا منظرنامہ بے یقینی کا شکار تھا۔ اس پوری فضا میں راحت کا جھونکا یہ تھا کہ اس خوفناک منظرنامے میں پاکستان اور بھارت جیسے ایٹمی ممالک کو بڑے خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جارہا تھا۔

چونکہ اب نریندر مودی کے ہاتھ میں اقتدار ہے، ایسے میں یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ وہ اقتدار میں رہتے ہوئے آگے کیا اقدامات کرنے والے ہیں۔ دوسری جانب شمالی کوریا بھی عالمی ممالک کے لیے باعثِ تشویش ہے۔

امریکی پروفیسرز، تجزیہ کاروں اور ریٹائرڈ فوجی افسران کو ایسا لگتا ہے جیسے 2024ء کی تباہی کا منصوبہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ منصوبہ یہی تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے سے پہلے ولادیمیر پیوٹن کو مشتعل کیا جائے۔ ہم اس دور سے گزر چکے ہیں۔ لیکن کیا واقعی ہم اس دور سے گزر چکے؟

اس خوف کے شکنجے میں، میں نے صورت حال کو سمجھنے کے لیے اینی جیکبسن کی کتاب ’نیوکلیئر وار: اے سیناریو‘ کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب میں ایٹمی تصادم کے امکانات اور انسانیت کے لیے اس کے تباہ کن نتائج کی کھوج کی گئی ہے۔

مصنفہ نے اس کتاب میں ایک تخیلاتی دنیا بنائی ہے جس میں امریکی صدر کے پاس شمالی کوریا کی جانب سے داغے جانے والے میزائل کو روکنے کے لیے محض 6 منٹ کا وقت تھا، ایسے میں فیصلہ سازی کا مرکز افراتفری کا شکار تھا۔

اینی جیکبسن کے لیے معلومات کے ذرائع ایسے لوگ ہیں جو اس طرح کی ممکنہ تباہی کی صورت حال کو سنبھالنے میں براہ راست ملوث تھے۔ ان میں ’صدارتی مشیر، کابینہ کے وزرا، جوہری ہتھیاروں کے انجینئرز، سائنسدان، فوجی، ایئر مین، خصوصی آپریٹرز، خفیہ سروس ایجنٹس، ایمرجنسی مینجمنٹ کے ماہرین، انٹیلی جنس تجزیہ کار، سرکاری ملازمین اور دیگر شامل تھے جنہوں نے کئی برس اس طرح کے حالات کے لیے کام کیا ہے‘۔

جب یہ ایٹمی بم پھٹے گا تو کیا ہوگا؟ اگر آپ اس کے قریب ہوں گے تو آپ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے زندہ نہیں ہوں گے۔ قوی امکان ہے کہ آپ سیکنڈ کے ایک حصے میں ختم ہوجائیں گے۔

اینی جیکبسن کہتی ہیں کہ ’ایک میگا ٹن تھرمونیوکلیئر ہتھیار کا دھماکا روشنی کی تیز چمک اور انتہائی زیادہ درجہ حرارت سے ہوتا ہے جو ایک عام انسان کی سوچ سے بالاتر ہے‘۔

’18 کروڑ ڈگری فارن ہائیٹ، سورج کے مرکز کے درجہ حرارت سے چار یا پانچ گنا زیادہ گرم ہے‘، مصنفہ کے خیال میں پینٹاگون پر شمالی کوریا کا بم ٹکرانے کے بعد پہلے ملی سیکنڈ میں شدید روشنی پیدا ہوئی۔

دھماکا ہوا تو اس سے نکلنے والی روشنی نے اپنے ارد گرد کی آب و ہوا کو کروڑوں ڈگری تک گرم کردیا جس سے آگ کا ایک بڑا طوفان پیدا ہوا جو لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھیلا۔

تصور کریں کہ شمالی کوریا کا میزائل پینٹاگون سے ٹکرا جاتا ہے تو ’اس کے دفتر کے 65 لاکھ مربع فٹ پر موجود ہر چیز روشنی اور گرمی کی ابتدائی چمک سے انتہائی گرم دھول میں تبدیل ہو جاتی ہے جب شاک ویو تقریباً بیک وقت آتی ہے تو تمام دیواریں ٹوٹ جاتی ہیں جس سے تمام 27 ہزار ملازمین فوری طور پر ہلاک ہو جاتے ہیں‘۔ چاہے ہم کسی جیل قید میں ہوں یا آزاد، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تمام انسان تختہ دار پر موجود ہیں۔ نیا سال مبارک!


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 4 جنوری 2025
کارٹون : 3 جنوری 2025