سندھ میں بجلی چوری کی روک تھام کیلئے تقسیم کار کمپنیوں میں انٹیلی جنس افسران تعینات
حکومت نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے تقریباً 6 ماہ بعد بجلی چوری کی روک تھام، ریکوری میں بہتری اور آپریشنل استعداد کار میں اضافے کے لیے سندھ میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) میں انٹیلی جنس، انویسٹی گیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کو تعینات کرنا شروع کر دیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پاور ڈویژن نے سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) کے لیے ڈسکو سپورٹ یونٹ (ڈی ایس یو) تشکیل دے دیا ہے، جو طویل سیاسی اور بیوروکریٹک مزاحمت کے بعد سندھ میں اس طرح کا پہلا اقدام ہے، یہ یونٹ دو سال تک قائم رہے گا۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ سیپکو کے سی ای او اور سول آرمڈ فورسز کے سیکٹر کمانڈر بالترتیب ڈی ایس یو کے ڈائریکٹر اور شریک ڈائریکٹر ہوں گے، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے گریڈ 18 اور 19 کے افسران اور کمشنر کے نامزد کردہ گریڈ 18 کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) افسران ڈی ایس یو کے رکن ہوں گے۔
اس کے علاوہ، ڈی ایس یوز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ سکھر سروس کے دائرہ اختیار میں ہر ڈویژن یا رینج سے گریڈ 18 کے انتظامی اور پولیس افسران کو متعلقہ کمشنرز یا ڈی آئی جیز کی کلیئرنس کے ساتھ شریک کریں۔
وفاقی کابینہ نے گزشتہ سال جولائی میں تمام ڈسکوز میں ڈی ایس یوز کے قیام کی منظوری دی تھی جس کا آغاز ملتان اور سکھر سے ہوا تھا اور پھر بجلی چوری اور ناقص وصولیوں کے خلاف مہم میں پاور ڈویژن کی مدد کے لیے بتدریج دیگر بجلی کمپنیوں کو منتقل کیا گیا تھا۔
ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ کابینہ کے فیصلے کے تقریباً ایک ماہ بعد ملتان میں ڈی ایس یو کو فعال کیا گیا تھا لیکن متعدد چیلنجز کی وجہ سے سکھر کے لیے اسے فعال نہیں کیا جاسکا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ شکایات کے باوجود ڈی ایس یو ملتان کا تجربہ عام طور پر حوصلہ افزا ہے، اس طرح لاہور اور کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنیوں میں بھی اس ماڈل کو یکے بعد دیگرے دہرایا گیا۔
عہدیدار نے کہا کہ بہت ساری پس پردہ سرگرمیوں کے بعد ہم سیپکو میں بھی ڈی ایس یو کی تشکیل کے لیے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ڈی ایس یو سکھر کو 5 بڑے اہداف تفویض کیے گئے ہیں، جن میں ریکوری اور بجلی چوری کی روک تھام کی منصوبہ سازی، انتظامی مداخلت کے ذریعے غیر تکنیکی نقصانات میں کمی، بہتری میں معاونت اور تکنیکی حل پر عمل درآمد، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سول انتظامیہ کے ساتھ ایک انٹرفیس قائم کرکے انتظامی خامیوں کو دور کرنا اور انٹیلی جنس پر مبنی شواہد کی بنیاد پر ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسران اور افسران کو فارغ کرنے کی سفارش کرنا شامل ہیں۔ ڈی ایس یو براہ راست وفاقی سیکریٹری توانائی کو رپورٹ کرے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی اپنی تازہ ترین اسٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ ٹیرف میں اضافے اور چوری پر قابو پانے کی کوششوں کے باوجود گزشتہ مالی سال میں بجلی کمپنیوں کے واجبات کا حجم 2.3 کھرب روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اصل نادہندہ رقم 900 ارب روپے سے تجاوز کر گئی ہے اور جون 2024 کے اختتام تک پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.4 کھرب روپے تک پہنچ گیا۔
انہوں نے کہا کہ تقسیم اور رسد کے شعبوں میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے بلکہ مالی سال 24-2023 کے دوران بجلی کی فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے۔
نیپرا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹی اینڈ ڈی (ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن) کے نقصانات میں اضافے اور ڈسکوز کی جانب سے ریکوری کا تناسب کم ہونے کی وجہ سے گردشی قرضوں کا بحران مزید خراب ہوا ہے۔
دوسری جانب وزیر توانائی اویس لغاری نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بجلی کے شعبے میں گورننس اصلاحات کے ثمرات مل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 10 میں سے 8 ڈسکوز کے بورڈز بغیر کسی سیاسی مداخلت کے تبدیل کیے گئے جس کے نتیجے میں جولائی تا نومبر ان کا خسارہ کم ہو کر 170 ارب روپے رہ گیا جو ایک سال قبل 223 ارب روپے تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر باقی 2 بورڈز تبدیل ہو جاتے تو نقصان مزید کم ہو کر 140 ارب روپے ہو جاتا کیونکہ ان دونوں کمپنیوں نے گزشتہ سال کے مقابلے میں 30 ارب روپے زیادہ کا اضافہ کیا۔
پاور ڈویژن نے گزشتہ سال جولائی میں وفاقی کابینہ کو بتایا تھا کہ ڈسکوز میں موثر انتظام ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے اور ماضی میں بہتری لانے کے لیے آزمائے گئے مختلف ماڈلز کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے جس کی وجہ سے گردشی قرضوں اور وصولیوں میں مسلسل اضافہ ہوا جس سے بجلی کا شعبہ ناقابل برداشت ہوگیا۔
اس طرح ڈی ایس یوز کو بڑے پیمانے پر بدانتظامی کو دور کرنے کی تجویز دی گئی تھی جو قومی خزانے کے لیے مسلسل خسارے کا ذریعہ بن گیا تھا، ڈی ایس یو کے ارکان کو ان کی اپنی تنخواہوں کے علاوہ ریکوری اور نقصان میں کمی سے حاصل ہونے والی آمدن کا ایک خاص فیصد بھی دیا جاتا ہے۔