آئی ایم ایف کا وفد چیف جسٹس کے پاس کسی مقدمے کا پوچھنے نہیں گیا، وزیر قانون
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس کسی مقدمے کا پوچھنے نہیں گیا تھا بلکہ ہمارے دوستوں کی طرف سے خطوط آئی ایم ایف کو بھیجے جاتے ہیں اور عدالتی درجہ بندی سے متعلق میڈیا میں رپورٹ ہوتا ہے وہ اس حوالے سے ملاقات کرنے گئے تھے۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر کی زیرِ صدارت سینیٹ اجلاس شروع ہوا، سینیٹ اجلاس میں پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر دعائے مغفرت کی گئی، دعا سینیٹر دوست محمد خان نے کروائی۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وقفہ سوالات پر جواب دینے کے لیے ایوان میں کوئی وزیر ہی موجود نہیں ہے، کوئی وفاقی وزیر کا ایوان میں موجود نہ ہونا افسوس ناک ہے۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ بزنس ایڈوائزری کمیٹی اجلاس میں بات ہوئی کہ ایوان میں ایک وزیر کو ایوان میں ہونا چاہیے لیکن حکومت کا ایک بھی وزیر ایوان میں نہیں ہے۔
بعد ازاں، وزرا کی ایوان میں عدم موجودگی کے باعث سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات و جوابات کو موخر کردیا گیا، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے وقفہ سوالات موخر کرنے کی تحریک پیش کی۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آج کے سوالات کو آئندہ اجلاس میں پیش کئے جائیں۔
جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضی نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں معاشی ترقی ایسی ہے کہ کرپشن انڈیکس بڑھ گئی ہے، آئی ایم ایف کا وفد آیا ہوا ہے جو چیف جسٹس سے مل رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات خود مختاری کے خلاف ہے، عدلیہ اتنی آزاد ہوگئی ہے کہ آئی ایم ایف سے مل رہے ہیں، بلوچستان خیبرپختو نخواہ میں حالات خراب ہیں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب میں کہا کہ آئی ایم ایف کا وفد چیف جسٹس کو ملا ہے، دو تین پروگرام ہیں، جو لا اینڈ جسٹس کمیشن چلاتا ہے، ہمارے دوستوں کی طرف سے خطوط آئی ایم ایف کو بھیجے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے عدلیہ کے سربراہ سے آئی ایم ایف وفد کی ملاقات ہوئی ہے، آئی ایم وفد سپریم کورٹ کسی مقدمہ کا پوچھنے نہیں گیا، عدالتی درجہ بندی پر اکثر میڈیا میں رپورٹ ہوتا رہتا ہے، اس حوالے سے ملاقات ہوئی ہے۔
وزیر قانون نے کہا کہ چیف جسٹس نے بطور سربراہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن ملاقات کی، آئی ایم ایف کے وفد نے چیف جسٹس سے ملاقات کی ججوں سے نہیں، ان کا جوڈیشل اصلاحات کا پروگرام ہے، چیف جسٹس سے وقت مانگا گیاتھا، انہوں نے گورننس اور عدالتی اصلاحات پر بات کی۔
اے این پی کے سینیٹر حاجی ہدایت اللہ نے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کو خیبرپختونخوا میں جلسے کی اجازت نہیں دی جارہی، ہم پرامن جماعت ہیں ہم یقین دہانی کراتے ہیں کہ پرامن جلسہ ہوگا۔
جس پر شبلی فراز نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی واحد جماعت ہے جس کو جلسے یا احتجاج کی نہیں دی جاتی، پنجاب اور سندھ سمیت اسلام آباد میں کئی بھی ہمیں این او سی نہیں دیا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن ہم کسی جماعت کو جلسے اور جلوس سے نہیں روکتے، میں صوبائی حکومت سے پوچھوں گا کہ کب انکی طرف سے درخواست دی گئی اور اگر اجازت نہ دی گئی تو میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں گا، خیبرپختونخواہ میں تمام جماعتوں کو جلسہ کرنے کی اجازت ہے۔
پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ اگر اے این پی راولپنڈی میں جلسہ کرنا چاہتے ہیں تو اجازت دی جائے، ہم جمہوری لوگ ہیں ان کو اجازت دی جائے، مسلم لیگ (ن) ان کو یقین دہانی کرائے، سینیٹر عرفان صدیقی اس متعلق بتائیں۔
مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اے این پی پرامن جماعت اس پر وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات کروں گا، اے این پی کو جلسہ کی اجازت ملنی چاہیے۔
’شفاف الیکشنز نہ ہونے کی وجہ سے معاشی استحکام نہیں آسکا‘
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ قومیں ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں، 1971 کے الیکشنز میں زیادہ سیٹوں والوں کو حکومت نہ دی گئی، یہاں بیٹھی کچھ جماعتوں نے سہولت کاری کی اور ملک دو لخت ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بڑی غلطی اور قیمت کے بعد بھی الیکشنز صاف شفاف نہیں کراسکے، ایک منتخب حکومت کو سندھ ہاؤس میں لوٹوں کی مارکیٹ لگا کر گرایا گیا، پاکستان کبھی بھی صاف شفاف الیکشنز نہیں کراسکا، اس وجہ سے کبھی معاشی سماجی استحکام نہیں آسکا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت میں آنے کے بعد سب سے پہلے صاف شفاف الیکشنز روکنے کی قانون سازی کی گئی، سب سے پہلے ای وی ایم قانون سازی ختم کی گئی، دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے کیسز بنائے، اشرافیہ کو حق نہیں کہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلیں۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم نے کوشش کی کہ دھاندلی کے نظام کو کس طرح مزید بہتر کیا جا سکے، پی ڈی ایم حکومت کے آنے کے بعد دو قانون ختم کئے گئے، ایک ای وی ایم کے قانون کو ختم کیا گیا، دوسرے نیب کے قانون میں ترامیم کر کے اپنے لوگوں کو بچایا گیا، کرپشن کے مرتکب لوگوں کو چھٹی مل گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ نے پی ٹی آئی کے اتنے لوگ جیلوں میں ڈال دیے ہیں، کہ جیلوں میں جگہ ہی نہیں رہی، اس طرح کے حالات میں استحکام نہیں آسکتا ہے، ایسے حالات میں ملک نہیں چل سکتا۔
’نوجوان کے لیے ملک میں ہر طرف اندھیرا ہے‘
شبلی فراز نے مزید کہا کہ جو اب ہمیں پیسے دے رہا ہے، اب وہ ہماری ایک ایک چیز کو ٹٹول رہا ہے، نوجوان کے لیے ملک میں ہر طرف اندھیرا نظر آرہا ہے، سیاست میں یہ ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
وزیر پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ نے شبلی فراز کو جواب دیا کہ الیکشنز ایکٹ کو 2017 کی شکل میں بحال کیا گیا، خیبرپختونخواہ میں جہاں یہ جھرلو پھیر کر جیتے وہاں ٹربیونلز میں تاریخیں لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان پنجاب میں ٹربیونلز تیزی سے فیصلے کررہے ہیں، نیب ہمیشہ سیاسی انجینرنگ کے لیے استعمال ہوتا رہا، پی ٹی آئی کے دور میں نیب کا سیاسی استعمال ہوا۔
سینیٹ میں حیاتیاتی اور زہریلے ہتھیار کنونشن عملدرآمد بل 2025 پیش کیا گیا، بل سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا، بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی بل واپس لے لیا گیا، بل واپس لینے کی تحریک اعظم نذیر تارڑ نے پیش کی۔
سینیٹر محسن عزیز نے ایوان میں کیپٹو صنعتی یونٹوں کو گیس کی سپلائی کی معطلی پر توجہ دلاؤ نوٹس میں کہا کہ یہ ایک بڑا اہم معاملہ ہے، اسے متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیں،
میں یہ ملکی مفاد میں بات کررہا ہوں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب میں کہا کہ پالیسی بناتے وقت ملکی مفاد کا خیال رکھا جاتا ہے، گزشتہ کئی سالوں سے آئی ایم ایف پروگرام چل رہے ہیں، پروگرام میں طے کیا گیا گہ ان پر تھوڑی سی لیوی لگائی جائے گی، انہیں شٹ ڈاؤن نہیں کیا گیا ہے جب کہ کابینہ میں اس معاملہ پر 3 بار بات چیت ہوئی ہے۔
بعد ازاں سینیٹ اجلاس کل صبح 10:30 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔