• KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:55pm
  • LHR: Zuhr 12:15pm Asr 4:19pm
  • ISB: Zuhr 12:20pm Asr 4:22pm
  • KHI: Zuhr 12:45pm Asr 4:55pm
  • LHR: Zuhr 12:15pm Asr 4:19pm
  • ISB: Zuhr 12:20pm Asr 4:22pm

10 دن واش روم نہ جانے دیا جاتا تو آپ یہاں کھڑے نہیں ہوتے، جج کا ارمغان سے مکالمہ

شائع February 27, 2025
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مصطفیٰ عامر قتل کیس کے ملزمان ارمغان قریشی اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ میں 5 دن کی توسیع کردی، عدالت نے ملزمان کا طبی معائنہ کرانے کی ہدایت کردی، عدالت نے ملزم کی جانب سے پولیس پر 10 روز سے واش روم جانے کی اجازت نہ دینے کا الزام تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

ڈان نیوز کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت نے مصطفیٰ عامر قتل کیس کے ملزمان ارمغان قریشی اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ میں 5 دن کی توسیع کردی، عدالت نے ملزمان کا طبی معائنہ کرانے کی بھی ہدایت کردی۔

دوران سماعت عدالت نے پولیس اور عدالتی عملے کی موجودگی میں ملزمان کی اہلخانہ اور وکلا سے ملاقات کرانے کی اجازت دے دی، عابد زمان، طاہرالرحمٰن اور بیرسٹر سارہ عاصم نے ملزمان کی طرف سے وکالت نامہ جمع کرادیا۔

ملزم ارمغان نے عدالت میں دہائی دی کہ ’مجھے پولیس کی تحویل میں نہ دیا جائے، یہ لوگ اذیت دیتے ہیں، 10 دن سے واش روم نہیں جانے دیا‘، عدالت نے ملزم کی بات تسلیم نہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ممکن ہی نہیں کہ 10 دن واش روم جانے نہ دیا جائے، ایسا ہوتا تو آپ یہاں کھڑے نہیں ہوتے‘۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ لڑکی زوما کا سراغ لگا لیا ہے، اس کا بیان ریکارڈ کرنا ہے، زوما کا ڈی این اے بھی کروانا ہے، ملزم کو مزید جسمانی ریمانڈ پر تحویل میں دیا جائے۔

ملزم ارمغان کے وکیل عابد زمان نے عدالت میں موقف اپنایا کہ شیراز کے وکیل کو شیراز سے ملنے نہیں دیا گیا لیکن یوٹیوبر انٹرویو لے رہے ہیں، 4 گھنٹے پولیس مقابلہ بہت اہمیت رکھتا ہے، اس دوران ملزم نے 15 کو کال کی تھی، اس کا ریکارڈ منگوایا جائے۔

ملزم کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ ملزم کو اس کی والدہ نے گرفتارکروایا تھا، ملزم کی وکیل سے ملاقات کروائی جائے۔

پراسیکیوٹر ذوالفقار آرائیں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم پر ملزم کا میڈیکل ہوچکا ہے، ملزم بہت شاطر اور خطرناک ہے، چالان جب تک نہیں آتا تفتیشی افسر کا حق ہے کہ وہ کسی کو ملنے نہیں دے، ملزم کو ملاقات اجازت نہ دی جائے ایسا ہوا تو تفتیشں میں مسائل ہوں گے۔

بعد ازاں انسداد دہشت گردی عدالت نے کورٹ روم کے اندر ملزمان کو اہلخانہ اور وکلا سے ملاقات کرنے کی اجازت دے دی۔

اس سے قبل پولیس نے انسداد دہشت گردی عدالت میں ملزم ارمغان کی گرفتاری اور اسلحہ برآمدگی کی رپورٹ جمع کرائی تھی۔

رپورٹ کے مطابق مصطفیٰ عامر کی بازیابی کے لیے ملزم ارمغان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تھا، پولیس ڈیفنس میں واقع ملزم کے بنگلے پر پہنچی تو اندر موجود شخص نے دروازہ نہیں کھولا۔

رپورٹ کے مطابق سرکاری موبائل کی ٹکر سے گیٹ کھولا گیا اور پولیس بنگلے میں داخل ہوئی، ملزم نے اوپر کی منزل سے پولیس پر جان سے مارنے کی نیت سے جدید اسلحے سے فائرنگ شروع کردی۔

ملزم کی فائرنگ سے ڈی ایس پی احسن ذوالفقار اور کانسٹیبل محمد اقبال زخمی ہوئے، ملزم کو بلند آواز میں سرینڈر کرنے کے لیے کہا جاتا رہا مگر وہ وقفے وقفے سے فائرنگ کرتا رہا، پولیس نے پیش قدمی کرتے ہوئے ملزم کو گھیرے میں لے کر گرفتار کیا، ملزم سے جدید اسلحہ بھی برآمد کیا گیا تھا۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا۔

بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

1000 حروف

معزز قارئین، ہمارے کمنٹس سیکشن پر بعض تکنیکی امور انجام دیے جارہے ہیں، بہت جلد اس سیکشن کو آپ کے لیے بحال کردیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 28 فروری 2025
کارٹون : 27 فروری 2025