• KHI: Fajr 5:26am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:53am Sunrise 6:14am
  • ISB: Fajr 4:57am Sunrise 6:20am
  • KHI: Fajr 5:26am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 4:53am Sunrise 6:14am
  • ISB: Fajr 4:57am Sunrise 6:20am

شام میں حکومتی فورسز اور معزول صدر کے حامیوں میں شدید جھڑپیں، 70 افراد ہلاک

شائع March 7, 2025
— فوٹو: رائٹرز
— فوٹو: رائٹرز

شام میں سیکیورٹی فورسز اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان شدید جھڑپوں کے نتیجے میں 70 سے افراد ہلاک ہوگئے، مرنے والوں میں سیکیورٹی فورسز کے 16 اہلکار جبکہ معزول صدر کے 28 حامی بھی شامل ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق شام کی سیکیورٹی فورسز ایک روز سے جاری پرتشدد جھڑپوں کے بعد ملک کے ساحلی علاقوں میں معزول صدر بشار الاسد کے وفادار جنگجوؤں کے خلاف ایک بڑا آپریشن کر رہی ہیں، ساحلی شہروں لاذقیہ اور ترطوس میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

برطانیہ میں قائم شامی مبصر گروپ برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ اب تک 70 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

دسمبر میں باغیوں کی جانب سے بشار الاسد کا تختہ الٹنے اور اسلام پسند عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے شام میں یہ بدترین تشدد ہے۔

یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب لاذقیہ میں سیکیورٹی آپریشن کے دوران سرکاری فورسز پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا، ساحلی علاقہ علوی اقلیت اور اسد خاندان کا گڑھ ہے۔

تشدد میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کا تخمینہ مختلف ہے اور بی بی سی آزادانہ طور پر ان کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔

جمعرات کی رات شام میں قائم ’اسٹیپ‘ نیوز ایجنسی نے اطلاع دی تھی کہ حکومتی فورسز نے معزول صدر کے حامی تقریباً 70 جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا ہے جب کہ جبلہ اور اس کے اطراف 25 سے زائد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

حمص اور حلب کے شہروں میں بھی جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ ویڈیوز پر حمص کی رہائشی سڑکوں پر بھاری فائرنگ کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔

الجزیرہ عربی کے مطابق مختلف مسلح جھڑپوں میں حکومتی فورسز کے 15 اہلکار بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق شام کی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل حسن عبدالغنی نے سرکاری میڈیا کے ذریعے لاذقیہ میں لڑنے والے اسد کے حامیوں کو انتباہ جاری کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہزاروں افراد نے ہتھیار ڈالنے اور اپنے اہل خانہ کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ہے اور محض کچھ افراد ہی قاتلوں اور مجرموں کے دفاع میں بھاگنے اور مرنے پر اصرار کرتے ہیں، انتخاب واضح ہے، ہتھیار ڈال دیں یا اپنے انجام کا سامنا کریں۔‘

یہ خطہ عبوری صدر احمد الشرع کے لیے سلامتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

علوی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسد کے خاتمے کے بعد سے ان کی برادری کو خاص طور پر حمص اور لاذقیہ کے دیہی علاقوں میں تشدد اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انہیں جنوب میں بھی مزاحمت کا سامنا ہے، جہاں حالیہ دنوں میں دروز فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں۔

اس ہفتے کے اوائل میں شام کے وزیر خارجہ نے کیمیائی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے کو بتایا تھا کہ نئی حکومت بشار الاسد کے دور میں تیار کیے گئے باقی ماندہ ذخیروں کو تباہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

بشار الاسد کی حکومت نے 14 سالہ خانہ جنگی کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے انکار کیا تھا۔

واضح رہے کہ 8 دسمبر 2024 کو شام کے صدر بشار الاسد 24 سالہ اقتدار کے خاتمے پر ملک سے فرار ہوگئے تھے، باغیوں کی جانب سے سرکاری ٹی وی پر دمشق کی فتح کا اعلان نشر ہوتے ہی ہزاروں افراد نے دارالحکومت کے مرکز میں واقع امیہ چوک میں آزادی کا جشن منایا تھا۔

حکومت کے خاتمے کے بعد جیلوں سے نکلنے والے قیدیوں نے ہولناک انکشافات کرتے ہوئے بشار الاسد کی بنائی ہوئی جیلوں میں غیر انسانی تشدد کا ذکر کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 13 مارچ 2025
کارٹون : 12 مارچ 2025