• KHI: Maghrib 6:39pm Isha 7:55pm
  • LHR: Maghrib 6:08pm Isha 7:29pm
  • ISB: Maghrib 6:12pm Isha 7:35pm
  • KHI: Maghrib 6:39pm Isha 7:55pm
  • LHR: Maghrib 6:08pm Isha 7:29pm
  • ISB: Maghrib 6:12pm Isha 7:35pm

یک طرفہ پالیسیوں کا وفاق پر شدید دباؤ، دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کی حمایت نہیں کرسکتا، صدر

شائع March 10, 2025
— فوٹو: پی آئی ڈی
— فوٹو: پی آئی ڈی
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ کچھ یک طرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں، بطور صدر دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کے یک طرفہ حکومتی فیصلے کی حمایت نہیں کرسکتا۔

پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں صدر آصف زرداری نے ارکان پارلیمنٹ کو قومی مفاد کو بالاتر رکھنے اور ذاتی و سیاسی اختلافات پشت ڈال کر معیشت کی بحالی، جمہوریت کے استحکام اور قانون کی حکمرانی کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت دے دی۔

ڈان نیوز کے مطابق صدر مملکت آصف زرداری نے اپوزیشن کے شور و شرابے کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بطور صدر، محب وطن پاکستانی کی حیثیت سےمیری ذمہ داری ہے کہ میں ایوان اور حکومت کو خبردار کروں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ یک طرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں، خاص طور پرحکومت کا دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کا یک طرفہ فیصلہ، اس تجویز کی بطور صدر میں حمایت نہیں کرسکتا۔

صدر مملکت نے کہا کہ حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس موجودہ تجویز کو ترک کردے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کیا جائے تاکہ وفاق کی اکائیوں کے درمیان متفقہ اتفاق رائے کی بنیاد پر قابل عمل، پائیدار حل نکالا جاسکے۔

صدر نے زور دیا کہ ایوانِ پارلیمنٹ کو سونپی گئی ذمہ داری کو پورا کرے، قوم کی تعمیر، اداروں کو مضبوط کرنے، گورننس کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرے۔

صدر آصف زرداری نے کہا کہ ’آئیے قومی مفاد کو مقدم رکھیں اور ذاتی وسیاسی اختلافات کو ایک طرف کرکے معیشت کی بحالی، جمہوریت کے استحکام اور قانون کی حکمرانی کے لیے مل کر کام کریں‘۔

قبل ازیں، صدر مملکت کا خطاب شروع ہوتے ہی پی ٹی آئی ارکان نے ڈیسک بجاکر احتجاج شروع کردیا تھا، شدید نعرے بازی کے باعث صدر نے کانوں پر ہیڈفون لگالیے تھے،صدر کے پورے خطاب کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے شدید نعرے بازی جاری رہی۔

صدر مملکت آصف زرداری نے کہا کہ ایوان سے بطور سویلین صدر 8 ویں بار خطاب کرنا میرا واحد اعزاز ہے، یہ لمحہ ہمارے جمہوری سفر کے تسلسل کا عکاس ہے، نیا پارلیمانی سال اپنی پیشرفت کا جائزہ لینے اور پاکستان کے بہتر مستقبل کی تعمیر کے عزم کا اعادہ کرنے کا موقع ہے۔

صدر نے کہا کہ’یہ لمحہ نہ صرف ہماری جمہوری سفر کی تسلسل کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ہمیں اپنی ترقی کا جائزہ لینے اور پاکستان کے لئے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے عزم کی تجدید کا موقع بھی فراہم کرتا ہے’۔

انہوں نے کہاکہ ’نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر میں اس ایوان سے اچھی حکمرانی اور سیاسی و اقتصادی استحکام کو فروغ دینے کی اپیل کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے عوام نے پارلیمنٹ سے اپنی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور ہمیں اس موقع پر اٹھ کھڑے ہونا ہوگا‘۔

صدر نے کہا کہ ’یہ میرا پہلا فرض ہے کہ میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ ہمیں اپنے جمہوری نظام کو مضبوط بنانے، قانون کی حکمرانی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے اور پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے‘۔

اپوزیشن ارکان کے احتجاج کے دوران صدر زرداری نے مزید کہا کہ ’میں معاشی ترقی کے ذریعے ملک کو مثبت سمت پر ڈالنے کی حکومتی کوششوں کو سراہنا چاہتا ہوں، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور اسٹاک مارکیٹ بھی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پالیسی ریٹ کو 22 سے کم کرکے 12 فیصد کردیا ہے اور دیگر تمام معاشی اشاریوں میں بہتری کے صحت مند اشارے ملے ہیں۔

صدر نے کہا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی آبادی کی حرکیات بدل گئی ہیں، عوامل کا ایک مجموعہ ان مسائل کو بیان کرتا ہے جن سے ہمیں نمٹنا ہوگا، ہماری آبادی میں اضافے کی بلند شرح کے ساتھ ساتھ ہماری انتظامی مشینری میں اسٹریٹجک بہاؤ نے گورننس کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے‘۔

صدر مملکت نے کہا کہ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اس ایوان کو اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ہماری گورننس اور خدمات کی فراہمی کے نتائج کی حقیقی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے’۔

صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ’جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو وزارتوں کو بھی اپنے وژن اور مقاصد کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے عوام کو درپیش اہم مسائل کو ایک مقررہ مدت کے اندر حل کرنا ہوگا، ہمیں جمہوری اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ٹھوس فوائد فراہم کرنے کی ضرورت ہے‘۔

صدر نے مزید کہا کہ ’جمہوریت کچھ لو اور کچھ دو کا تقاضہ کرتی ہے، اور اجتماعی مقاصد پر کام کرنے کے لیے اس پارلیمنٹ سے بہتر جگہ اور کیا ہو سکتی ہے؟‘۔

صدر نے ارکان پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’منتخب نمائندوں کی حیثیت سے آپ قوم کے لیے رول ماڈل کے طور پر کام کرتے ہیں، جب آپ اپنے پارلیمانی امور کے بارے میں بات کرتے ہیں تو محدود مقاصد سے آگے بڑھ کر اس اتحاد اور اتفاق رائے کے بارے میں سوچیں جس کی ہمارے ملک کو اشد ضرورت ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میں آپ سب پر زور دوں گا کہ ہمارے لوگوں کو بااختیار بنائیں، اتفاق رائے سے قومی اہمیت کے فیصلے کریں، معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں، سماجی اور معاشی انصاف کو فروغ دیں اور ہمارے نظام میں شفافیت کو یقینی بنائیں۔

صدر مملکت نے انفرااسٹرکچر، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور معاشی مواقع میں سرمایہ کاری کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی تاکہ ان شعبوں کے حوالے سے پائے جانے والے احساس محرومی کو دور کیا جا سکے، انہوں نے ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے اور آئی ٹی انڈسٹری میں اصلاحات کے بارے میں بات کی۔

انہوں نے کاروباری برادری، آئندہ بجٹ کو بہتر بنانے، خواتین کو بااختیار بنانے اور گھریلو اور علاقائی رابطوں کے بارے میں بھی بات کی۔

صدر زرداری نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ آئندہ بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے مختص رقم میں اضافہ کریں اور وظائف اور مالی معاونت کے پروگراموں کے ذریعے نوجوانوں کو مزید مواقع فراہم کریں۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور گوادر پورٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دونوں منصوبے پاکستان کے رابطے کے وژن کا مرکز ہیں۔

ان منصوبوں کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کو جوڑنے والے بین الاقوامی تجارت کے گیٹ وے کے طور پر کام کر سکے۔

انہوں نے آبپاشی کے پائیدار نظام کو یقینی بنانے اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لیے زراعت کے شعبے کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو خوراک کی پیداوار میں استحکام اور خود کفالت کا ہدف حاصل کرنا ہوگا۔

واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 56 کے مطابق صدر ہر پارلیمانی سال کے پہلے اجلاس کے آغاز پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے مشترکہ اجلاس کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے تھے۔

اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کے علاوہ ترکی، متحدہ عرب امارات، آذربائیجان، فلسطین، جرمنی، فرانس اور عراق کے سفیر بھی اجلاس میں شریک ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیراعلیٰ بلوچسستان سرفراز بگٹی بھی پارلیمنٹ میں موجود ہیں، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 11 مارچ 2025
کارٹون : 10 مارچ 2025