• KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:51pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm
  • KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:51pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm

تنازع اور تجارت

شائع February 20, 2013

فائل فوٹو --.

وقت کس طرح بدلتا ہے:کبھی ہندوستان تھا جو کئی سالوں سے ہماری طرف تجارت اور اقتصادی مواقعوں کے لیے ہاتھ بڑھاتا رہا اور یہ یقینی طور پر پاکستان تھا جو فرسودہ تصورات پر مبنی خیالات کے باعث غصے سے بڑھا ہاتھ جھٹکتا رہا۔

اور اب کنٹرول لائن پر ہونے والے ایک واقعے کے بعد یہ ہندوستان ہے جو غصے سے چلا رہا ہے اور یہ پاکستان ہے جو امن کی بولی بولتے ہوئے اسے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کررہا ہے۔

چلیے، سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے: لائن آف کنٹرول پر جو کچھ ہوا، وہ دہشت گردی کی کوئی کارروائی نہیں بلکہ ایک حادثہ تھا۔

علاقہ ممنوع میں دو بڑی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے، آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھی ہیں، ایسے میں اس طرح کا کسی حادثے کا ہوجانا ناگزیر ہوگا، اور اب جب کہ یہ ہوچکا تو پھر بور کردینے والی خونی پیشگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ ہندوستان یا پاکستان کے حوالے سے کوئی منفرد واقعہ نہیں۔ آپ دنیا بھر میں کہیں بھی دیکھ لیں، جہاں بھی دو ایسے ملک، جن کی تاریخ جنگوں سے آراستہ ہو، تنازعات موجود ہوں اور دونوں کی فوجوں کی بڑی تعداد ایک دوسرے کے اتنے قریب آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھی ہو، وہاں اس طرح کے حادثات ہو ہی جاتے ہیں۔

مزید اس میں کیا کچھ ہے: کہانی پیچیدہ اور بہت گھسی پٹی ہے۔ پہلا تصور یہی تھا کہ یہ پاکستان کی طرف سے بلا اشتعال فائرنگ یا دراندازی کی بات نہیں تھی لیکن جو کچھ ہوا یا اس کے علاوہ اس میں جو دوسری چیزیں شامل ہیں، ان سب کا سیاق و سباق تاریخ سے جُڑا ہے۔

اس معاملے میں جو کچھ غیر معمولی ہوا، وہ ہندوستانی ذرائع ابلاغ کا طوفان ہے جس نے تصویر کا ایک مشتبہ اور مختلف پہلو پیش کیا، جس میں ہندوستانی فوج کو ایک طرف کر کے، واقعے کی کُلّی ذمہ داری پاکستانی فوج پر ڈال دی گئی تھی۔

ہندوستانی ذرائع ابلاغ اور ٹی وی اینکرز کے غم و غصے اور ان کی طرف سے کھڑے کیے گئے ہوّے نے اُن عام پاکستانیوں کو دباؤ سے دو چار کردیا جو ویزے کی نئی سہولتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کا دورہ کرنا چاہتے تھے۔

کھیلوں اور ثقافت سے جڑے تعلقات و مذاکرات کو بھی نقصان پہنچا اور ایک عام آدمی ڈرنے لگا کہ اگر ہندوستان کی سڑک پر چلتے پھرتے اسے کسی نے بطور پاکستانی اسے شناخت کرلیا تو مصیبت میں پڑسکتا ہے۔

ایسے میں ہندوستان کے کچھ بہادر صحافیوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اس عالم میں خطرہ مول لیا اور حقائق کو دن کی روشنی میں عوام کے سامنے لائے اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ معاملات پیچیدہ ہیں۔

گذشتہ کئی دہائیوں سے دونوں طرف سے سفاکانہ رویوں کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے اور اس ماحول میں، اس سے پہلے اس طرح کی کوئی مثال موجود نہیں۔

میرا خیال ہے کہ جو کچھ ہوا، اس کے پیچھے ماضی کے فرسودہ جذبات اور متروک خیالات تھے، جنہوں نے تعلقات میں سرد مہری کی برف پگھلنے کے سبب سر اٹھایا۔

میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان جامع مذاکرات کے لیے ضروری ہے کہ مسائل و معاملات کو مختلف خانوں میں بانٹ کر بات چیت کی جائے، تاکہ اگر کسی ایک معاملے کی حدود میں اس طرح کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے تو وہ کسی دوسرے خانے میں موجود معاملے کو قطعی متاثر نہ کرسکے۔

جہاں تک میرا خیال ہے تو اس طرح کے مذاکرات کا تصور خود ہندوستان نے پیش کیا تھا۔

تو پھر ہوا کیا تھا؟ ہم سے کہا گیا کہ نفرت کی پروان چڑھتی فضا انتخابات کے سبب ہے۔ یہ جھوٹ پورے معاملے میں ناکامی کی جڑ ہے۔

بظاہر یہی لگتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کی پیاس ہے اور رہے سیاستدان تو ان میں اتنی ہمت نظر نہیں آتی کہ وہ دائیں بازو والے کے سامنے کھڑے ہو کر سچ بول سکیں۔ انہیں خوف ہے کہ ایسی جرات دوبارہ منتخب ہونے کے سودے پر مہنگی پڑسکتی ہے۔

بات صاف ہے۔ ان سب کے نتیجے میں غصہ تیزی سے سفر کرتا ہوا اعلیٰ سطح کے پالیسی سازوں سے ٹی وی اسکرین اور وہاں سے ہوتا ہوا سڑکوں پرعام آدمی تک پہنچ گیا۔

بطور پاکستانی ہم اس چیز کو محسوس کرسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انتخابات سر پر ہوں تو سیاستدان عوامی غیض و غضب اور ان کے مشتعل جذبات سے کتنے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔

ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا اپنی ریٹنگ کی پیاس بجھانے کے لیے کس حد تک بگاڑ پیدا کرنے میں آگے جاسکتا ہے۔

ہم میں سے بہت سارے لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ تقریباً دنیا بھر میں ہی اینکرز کتنی لاعلم اور مغرورنسل ہے۔ تو ایسے میں ان سے کس قسم کی توقع کی جاسکتی ہے؟

الیکٹرانک میڈیا جو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے وقتاً فوقتاً نفرت پر مبنی اپنی مہم چلاتا ہے اور سب ہی یہ جانتے کہ نفرت کتنا قدیم ہتھیار ہے اور آج بھی اس سے زیادہ تیزی سے کوئی اور شے مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتی۔

ایک اینکر کو ہر رات اپنے ناظرین کو کچھ ایسا دینا پڑتا ہے، جسے وہ دیکھنے سننے کے لیے اُس ٹی وی چینل کے سامنے جمے رہیں۔ ایسے میں ریٹنگ کے بنا، ایک اینکر کی اہمیت ہی کیا رہ جاتی ہے؟

رہے سیاستدان تو اگر وہ اتنے ہی بہادر ہیں کہ اپنے جرائتمندانہ موقف کو لے کر غیض و غضب سے بھرے مجمع کے سامنے ڈٹ سکتے تو وہ پھر سیاست میں نہیں ہوتے۔

دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات شروع کرنے پر بات چیت ہورہی تھی مگر اس واقعے کا سب سے شرمناک پہلو یہ ہے کہ اقتصادی تعلقات کا یہ دور شروع ہونے سے قبل ہی تعطل کا شکار ہوگیا۔

یہ صورتِ حال اقتصادی معاملات کے حوالے سے خوش آئند ہرگز نہیں ہوسکتی۔ بہتر ہوگا کہ تعلقات کے ان جذباتی پرانے رشتوں کو، اس معاملے سے علیحدہ کر دیا جائے تاکہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ کم ازکم اقتصادی معاملات کو یرغمال نہ بناسکے۔

یہ برسوں میں پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں اس موضوع پر بات کی جارہی ہے کہ ہمیں کنٹرول لائن سے متعلق معاملات کو اقتصادی معاملات سے علیحدہ کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

دونوں ممالک منصفانہ اور پائیدار امن کی تلاش عظیم تر باہمی اقتصادی تعاون میں کررہے ہیں اور یہ امید افزا بات ہے۔

اس وقت پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تین بڑے معاملات ایسے ہیں، جنہیں ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

پہلا مسئلہ تو سرزمین کا ہے کہ کس طرح نقشے پر لکیر کھینچی جائے۔ دوسرا پانی کی تقسیم کا اور تیسرا ہے تجارت کا آغاز۔

یہاں ایک بار پھر یہ کہنا درست ہوگا کہ معاملات کو ایک دوسرے میں مدغم کرنے کے بجائے انہیں علیحدہ علیحدہ کر کے دیکھنا ہی بہتر ہے۔

مثال کے طور پر کنٹرول لائن پر جو کچھ ہوا، اس کو جواز بنا کر آبی مسائل پر جاری مذاکرات کو منقطع کردینا کہاں کی دانشمندی ہے۔

یہاں، پاکستان میں ہم جیسے کئی لوگ برسوں سے موٹی عقل والوں کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں اوراب بھی نظر تو یہی آتا ہے کہ ہندوستان کی موٹی عقل میں یہی بات اتارنے کے لیے مزید کئی سال اور صرف کرنا پڑیں گے۔

اس ضمن میں ریٹنگ کے پیاسے میڈیا یا اینکرز کو کشیدگی نہ پھیلانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا تاہم یہ ممکن ہے کہ دسرحد پار موجود اُن ہندوستانی صحافیوں تک پہنچا جائے جو دونوں کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کی صلاحیت اور سچ بولنے کی جرات اپنے اندر رکھتے ہیں۔

وہ اس بات کو یقینی بناسکتے کہ جذبات کا طوفان کہیں ہم دونوں کو اپنے ساتھ بہا کر نہ لے جائے۔

آخر کار یہی وہ کام ہے جو برسوں سے ہم جیسے کچھ صحافی سرحد کے اِس طرف کئی دہائیوں سے لے کر اب تک، بدستور کیے جارہے ہیں۔


مضمون نگار کراچی میں مقیم صحافی ہیں اور اقتصادی و تجارتی امور کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔
khurram.husain@gmail.com
Twitter: @khurramhusain

ترجمہ: مختار آزاد

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025