• KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:51pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm
  • KHI: Asr 5:04pm Maghrib 6:51pm
  • LHR: Asr 4:38pm Maghrib 6:27pm
  • ISB: Asr 4:44pm Maghrib 6:34pm

عبوری ایجنڈا

شائع April 6, 2013

نگراں وزیراعظم میر ہزار کھوسو۔ فائل فوٹو
نگراں وزیراعظم میر ہزار کھوسو۔ فائل فوٹو

جیسا کہ اب ظاہر ہونا شروع ہوا، ہر معیار سے نگراں حکومت بھاری ایجنڈے کی حامل ہے مگر اس کا مینڈٹ بہت ہلکا ہے۔ یہ ایک غلط امتزاج ہے۔

یہاں کئی ایسے امور ہیں جو بنا تاخیر توجہ کے طلب گار ہیں، ان میں سرِ فہرست مالیاتی خسارہ ہے۔ ٹیکس حکام کو مالیاتی سال کی آخری سہ ماہی میں سات سو نواسی ارب روپے کے ہدف کا تعاقب کرنا ہے اور یہ نظر ثانی شدہ، دو سو پچپن ارب روپے کی بہت بڑی کٹوتی کے بعد کا سالانہ ہدف ہے۔

اس وقت جو صورتِ حال ہے اس کے پیشِ نظر نگراں حکومت کے پاس کسی بڑی اصلاح یا اسٹرکچرل غیر فعالیت کو ختم کرنے کے لیے بہت کم وقت باقی بچا ہے۔

بجٹ کا حقیقی مالیاتی خسارہ تو تب ہی پتا چلے گا جب وزارتِ خزانہ کا کوئی وزیر ہو اور وہ حکومت کے حقیقی اخراجات اور آف دی بُک اعداد و شمار ظاہر کرنے پر بھی آمادہ ہو، تاہم تخمینے بتاتے ہیں کہ بجٹ کا کُل مالیاتی خسارہ شرح نمو (جی ڈی پی) کے آٹھ فیصد تک ہوسکتا ہے۔

ذرا تقابل کریں کہ وہ بجٹ کیسا ہوگا جس کا مالیاتی سال چار اعشاریہ سات فیصد سے شروع ہورہا ہو۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں کُل ٹیکس وصولی، شرح نمو کے نو فیصد سے بھی کم ہوگی، ایسے میں تصور کیجیے کہ تین اعشاریہ تین فیصد کی کمی اس صورتِ حال میں کیا معنیٰ رکھتی ہے۔

اس طرح کے اعداد و شمار میں ہر ایک فیصد نہایت اہمیت رکھتی ہے لیکن ایسے میں یہ مزید توجہ کی طالب ہے کہ جب بنیادی سطح پر آغاز ہی نہایت سست رفتاری سے ہورہا ہو۔ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) جس کے کندھوں پر یہ خسارہ پورا کرنے کی ذمہ داری عائد ہے، وہ جارحانہ طور پر ہر ممکن ایسے اقدامات کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، جس سے قومی خزانے کو آمدنی کا ایک قطرہ بھی حاصل ہوسکے۔

پہلی توجہ لرزے کا شکار ٹیکسٹائل صنعت تھی، جو تین سو ارب روپے کی ٹیکس نادہندہ تھی۔ ادائیگیوں کے معاملات طے ہونے کے بعد مختلف ٹیکسٹائل یونٹس سے انہیں صرف چار ارب روپے ہی حاصل ہوسکے۔ جس کے بعد ایف بی آر نے دوسرے شعبوں کی طرف توجہ مرکوز کی۔

میڈیا اطلاعات میں نام لیے بغیر 'حکام' کا حوالہ دیتے ہوئے اُن کا دعویٰ بتایا گیا ہے کہ تقریباً ایک سو پچاس کمپنیوں کے ذمے اس وقت پینتالیس ارب روپے کے ٹیکس واجبات ہیں۔

یقیناً اس بار پھر اس معاملے پر ایف بی آر حکام اور کمپنی انتظامیہ کے درمیان، ادائیگیوں کے معاملے پر مذاکرات ہوں گے اور نتیجے میں کم از کم ادائیگی پر معاملات طے کرلیے جائیں گے۔

یہ ایک پرانا طریقہ کار ہے، جس میں ٹیکس حکام انکشاف کرتے ہیں کہ انہوں نے بھاری ادائیگیوں کے نادہندگان کا پتا چلایا ہے۔ اس کے بعد وصولیوں کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائی کی جاتی ہے، جیسا کہ بڑی کمپنیوں کے بینک کھاتے منجمد کردینا اور ملازمین کی گرفتاری وغیرہ۔

گذشتہ موسمِ گرما کے دوران ٹیلی کام سکیٹر کیس کو یاد کیجیے، جس کے بارے میں ٹیکس حکام نے دھڑلے سے کہا تھا کہ انٹر کنیکشنز چارجز کے حوالے سے سینتالیس ارب روپے کا 'گھپلا' پکڑا گیا ہے۔

اس معاملے کے ایک حصے کو طور پر، بڑی ٹیلی کام کمپنیوں پر چھاپے مارے گئے، ان کے بینک کھاتے منجمد ہوئے، اور پورے شعبے کی انتظامیہ کو کرپشن کے الزامات کی تفتیش کے لیے نیب حکام نے طلب کرلیا۔

اُس کے بعد کیا ہوا؟ دونوں کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں معاملات طے کے لیے خطوط متعین ہوئے لیکن انہیں عوام کے سامنے کبھی نہیں لایا گیا۔

نہایت عمدگی سے ترتیب دی گئی تقریب کے ایک حصے کے طور پر، ہر بار یہ کھیل یونہی کھیلا جاتا رہا ہے لیکن ٹیلی کام سیکٹر کی وکٹ کمزور تھی۔ وہ اس لیے پھنسے کہ اس کی صنعتی وابستگیاں نہیں تھیں، جو اُن کے مفادات کا تحفظ کرسکے لیکن ٹیکسٹائل شعبہ ایسا ہر گز نہیں۔

یہ شعبہ ٹیکس حکام کے خلاف اس لیے بھرپور جنگ لڑنے کے قابل ہے کہ ان کی ایک نہایت مضبوط نمائندگی موجود ہے، خواہ یہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (آپٹما) کے تحت ہو یا اُن رہنماؤں کی شکل میں جو ٹیکس حکام کو مذاکرات کی تھکادینے والی دلدل میں گھسیٹ کر زیر کر ڈالتے ہیں۔

بینک اور آئل اینڈ گیس سیکٹر نہایت منظم نہیں، اس لیے اجتماعی مفادات کے تحفظ میں یہ شعبے خطرے کی زیادہ زد پر ہیں، دوسری طرف ان کا ریٹیل سیکٹر بھی غیر منظم، منتشر اور نہایت شدید ردِ عمل دینے والا ہے۔

ایک اور شناخت واجبات کی 'وصولی مہم' بھی ہے، جیسی کہ گذشتہ ماہ نیب نے پاور سیکٹر کی وصولیوں کے لیے کی تھی۔

وزارتِ بجلی و آب پاشی نے نیب سے درخواست کی تھی کہ وہ اس کے واجبات کی ادائیگی میں مدد کرے۔ جس کے بعد فروری میں تمام پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے کہا گیا کہ وہ ایسے تمام صارفین کی فہرست پیش کریں جن پر ایک لاکھ روپے سے زائد رقم واجب الادا ہو۔

وزارت نے یہ فہرست مارچ میں نیب حکام کے حوالے کردی اور اخباری اطلاعات کے مطابق انہوں نے پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو ایک سو چھیاسٹھ ارب روپے کے واجبات کی وصولیاں کرادیں۔

نادہندگان کی اس فہرست میں انفرادی سطح پر صارفین، کمپنیاں، سرکاری محکمے، بشمول رینجرز اور فوج بھی شامل تھے، جن سے نیب نے وصولیاں کیں۔

اس ساری مہم کا ایک دلچسپ ترین پہلو یہ ہے کہ اسلام آباد پاور ڈسٹری بیوشن نے نادہندگان کی جو فہرست پیش کی تھی اس میں خود نیب بھی شامل تھا، جس کے ذمے دو لاکھ اکانوے ہزار کی رقم واجب الادا تھی، تو ایسے میں کیا ہوگا؟

کتنے شرم کی بات ہے کہ جو دوسرے نادہندہ صارفین سے واجبات کی وصولی کررہے ہوں خود ان کا نام بھی اسی فہرست میں شامل ہو۔ اس صورتِ حال کے بارے میں نیب کا وضاحتی بیان میڈیا کے ریکارڈ پر ہے۔

نیب ترجمان نے 'ڈان' سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ نادہندگان کی نہ صرف فہرست شائع کریں گے بلکہ ان پر مقدمے بھی ہوں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے ذمے جو ادائیگیاں ظاہر کی گئی ہیں، وہ متنازع ہیں۔

ترجمان کا کہنا تھا 'ہم سیکٹر جی فائیو میں واقع وزارتِ خزانہ کی عمارت میں صرف چند کمرے استعمال کررہے تھے لیکن اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کارپوریشن نے ہمیں پوری عمارت میں استعمال کی گئی بجلی کا کا بِل بھیج دیا۔ اس ضمن میں ہم کمپنی سے بات چیت کررہے ہیں۔ ورنہ اس کے سوا، ہم پر الیکٹرک سپلائی کمپنی کے کوئی واجبات نہیں۔'

چونکہ نیب خود بھی متنازع بِل کے سبب الیکٹرک سپلائی کمپنی سے مذاکرات کررہا تھا، لہٰذا اس نے محسوس کیا کہ 'اس کے علاوہ ان کے ذمے کوئی واجبات نہیں۔' اس کے بعد نادہنگان کی فہرست شائع نہیں ہوئی، تو اب یہ رویہ ہم سب کو کس سمت لے جارہا ہے؟

ٹیکس کی بات ہو یا دیگر واجبات وصولی کی، اس طرح کا جارحانہ رویہ نہ صرف حکومت بلکہ اُن کے لیے بھی جو وصولی کے ذمہ دار ہیں، شرمندگی کا سبب بنتا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ جب کسی فریق پر بہت زیادہ دباؤ پڑے گا تو وہ عدالت کا رخ کرے گا اور پھر سارا معاملہ اس کے سامنے چلا جائے گا۔

یہ بات علم میں ہے کہ صنعتوں کے نمائندے اتنی اہلیت رکھتے ہیں کہ خواہ ٹیکس حکام ہوں یا پھر دیگر واجبات کی وصولی کے ذمہ دار، وہ لامحالہ انہیں اتنی نچلی سطح پر لا کر، اتنی کم تر ادائیگی پر رضامند کرسکتے ہیں جو طلب کردہ اصل سے کئی گنا کم ہو۔

ایک ضروری حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے، اب آنے والے دنوں میں بہت سارے فریقین سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگا۔


کراچی سے تعلق رکھنے والے مضمون نگار معیشت و پالیسی کے امور سے متعلق لکھتے ہیں۔ khurram.husain@gmail.com Twitter: @khurramhusain

ترجمہ: مختار آزاد

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025