کھیل شروع کرتے ہیں
ایک پیچیدہ انتخابات نے ہمیں بہت ہی سادہ مگر واضح نتائج دیے ہیں- معاملات کی ذمہ دار فقط ایک واحد جماعت کی موجودگی میں شاید یہ امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت میں کچھ استحکام ہوگا-
ایک بڑا مینڈیٹ جس کے تحت قانون سازی کی جا سکے اور پالیسی چلائی جا سکے ، لیکن 1997 کے برعکس اتنا وسیح مینڈیٹ نہیں کہ آئین میں رد و بدل کی گنجائش پیدا ہو, راۓ دہندگان نے نواز شریف کو اتنی ہی گنجائش دی ہے کہ وہ اپنے کے ہووے وعدوں کو پورا کر سکیں اس سے زیادہ وہ ایک انچ بھی نہیں ہل سکتے -
تو جیسا کہ ایک پرانی کہاوت ہے: کھیل شروع کیا جاۓ ، خیال رہے کہ شروع کے 100 دن بہت اہم ہیں ،جب حکومت کے پاس اپنی حکمت عملی ترتیب دینے کے لئے وافر گنجائش ہے اور کسی قسم کے ذاتی مفاد کے لئے جگہ محدود ، اس دوران حکومت کے افعال اس کے ارادوں کا بہترین مظہر ہونگے -
یہاں دو چیزیں ہیں جن پر ہمیں توقع ہے کے فوری اقدامات کے جائیں : بگڑتے ہووے ذخائر کی بحالی کے لئے IMF سے رابطہ اور انڈیا کے ساتھ تجارت کے لئے پسندیدہ ملک کا درجہ حاصل کرنا -
ان دونوں معاملات کے لئے ضروری اقدامات کے جا چکے ہیں - جناب اسحاق ڈار کو اسٹیٹ بینک سے فوراً اور سب سے پہلے رابطہ کرنا چاہیے اور ان سے ریاستی زخائر پر معلومات و ہدایات لینی چاہییں - ان کو چاہیے ریاستی ذخائر کے اعداد و شمار طلب کریں ، ساتھ ہی IMF کو ادائیگی کا شیڈول بھی -
ان کو یہ پتا چلے گا کہ اگلا مالیاتی سال جس کا آغاز یکم جولائی سے ہوگا اور اختتام اگلے جون کو ہوگا, IMF ادائیگی کا آخری سال ہے - اس سال مکمل ادائیگی کا تخمینہ 3.3 بلین کے آس پاس ہے جو کہ دو بڑی ادائیگیوں کی صورت میں ہیں---- پہلی اگست میں اور دوسری نومبر میں ، اور یہ دونوں ہی 400 ملین کے اندر ہیں -
اسٹیٹ بینک میں زیادہ تر لوگ انکو یہی بتائیں گے کہ حالات بگڑتے جا رہے ہیں - خزانچی انکو یہی بتائیں گے کہ مناسب آتشی طاقت کی پشت پناہی کے بغیر انہیں روپے کی قدر مستحکم رکھنے میں بیحد دشواری پیش آرہی ہے - نظام زر کے ادارے انہیں بتائیں گے کہ سود کی شرح کو کم نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ذخائر کی حالت تشویشناک ہے -
اس کے بعد ڈار صاحب کو اسٹیٹ بینک سے یہ پوچھنا چاہیے کہ ذخائر کے حوالے سے انکا سبکدوش ہونے والی حکومت کو کیا مشورہ ہے . اور اگر صورتحال اتنی ہی ڈانواڈول ہے جتنی بتائی جا رہی ہے تو انہیں چاہیے کہ پھر وہ خطرے کی گھنٹی کب بجائیں گے -
اگر انہیں لگتا ہے کہ اسٹیٹ بینک یہ مشوره دے رہی ہے کہ جانے والی حکومت IMF سے رابطے کا فیصلہ نئی حکومت کے کاندھوں پر ڈال دیں تو ڈار صاحب کو یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا یہ اقتصادی فیصلہ ہے یا سیاسی ؟ اور ساتھ یہ بھی کہ مرکزی بینک میں کون اسمشورے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے -
خزانے کے سربراہان اور ایکسچینج کمپنیاں ، جن کو جناب سلیم مانڈوی والا نے بڑی جلدبازی میں تلاش کیا ہے ، سے بے ڈھب بڑی بڑی ملاقاتوں سے بچا جاۓ کیوں کہ آج تک یہ کبھی کارآمد نہیں ہوئیں -
اس کے بجاۓ ڈار صاحب کو خود اس بات کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ IMF سے رابطے کی ضرورت ہے یا نہیں ، اور آیا پاکستان اپنی ادائیگی کا آخری سال گزار پاۓ گا اور کیا سرمایہ اکاؤنٹ اپنے پچھلے قرض خواہ کی مدد کے بغیر بوجھ برداشت کر لے گا -
واحد نکتہ جو وقت کی اہم ضرورت ہے وہ یہ کہ انہیں تیزی سے حرکت کرنا ہوگی اورانہیں مارکیٹوں کو مبہم اشارہ دینا ہوگا - یہ کوئی 100 دن پی مشتمل ایجنڈا نہیں ہے بلکہ یہ کام 10 دن کے اندر اندر کرنا ہوگا-
2008 کی بد ترین غلطی نہیں دہرانا چاہیے، جس میں ایک ایسی حکومت موجود تھی جو کہ بری طرح بدحواس تھی اور بیحد پرامید کہ باہمی امداد IMF سے کسی قسم کے رابطے کو غیرضروری بنا دے گی - باہمی وسائل سے ہونے والے ممکنہ درآمدوں کی منصوبہ بندی میں وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے - یا تو ہم اگلے سال تک اپنی ادائیگی کا توازن برقرار رکھ لیں گے یا پھر ہمیں IMF سے امداد لینا پڑے گی اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے -
مالیاتی منڈی میں ڈار صاحب ایک جانی پہچانی ہستی ہیں - بہت سے کھلاڑی چاہے وہ بڑے بینکوں کے خزانوں کے سربراہان ہوں یا مبادلہ کی کمپنیاں ان سب نے وہ وقت دیکھا ہے جب ڈار صاحب نے Q بلاک میں معاملات سنبھالے تھے - ان میں سے کچھ نے ان مشکل دنوں میں ڈار صاحب کے ساتھ کام بھی کیا تھا - جب پاکستان کی کشتی بھنور میں پھانسی تھی ، انہوں نے روزانہ کی بنیاد پر بیرونی قرض خواہوں اور تیل کے سپلائروں کو ادائیگی کی تھی -
اس بار حالات اتنے برے نہیں ہیں - ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ ڈار صاحب تکنیکی نظریے کے حامل افراد میں سے نہیں ہیں جن پر سبکدوش ہونے والی حکومت انحصار کر رہی ہے - ایک مخصوص تکنیکی نظریے کے حامل کو کابینہ میں موجود ان کے رفقا نہ ہی سنجیدگی سے لیتے ہیں نہ سنتے ہیں -
جب کہ ڈار صاحب کی جڑیں اپنی جماعت میں گہرائی تک پونھنچی ہوئی ہیں اور ساتھ ہی جماعت کی قیادت سے بھی انکا رابطہ کافی گہرا ہے - انکو اپنے سابقہ عہدے داروں کے مقابلے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آۓ گی، جس نے ان کے کاندھوں پر شروعات میں ہی توقعات کا بوجھ پڑ گیا ہے -
توانائی شعبے میں حکومت کو دو کام کرنے چاہییں اگر وہ انتخابی مہم میں اپنے کے جانے والے وعدے کہ لوڈشیڈنگ دو سال میں ختم کر دی جاۓ گی پر پورا کرنے پر سنجیدہ ہے - سب سے پہلے تو یہ پیٹرولیم، پانی اور توانائی کی وزارتوں کو ایک ہی وزارت میں مدغم کر دے - اور پھر توانائی کی نوکرشاہی کو روشنی میں ضرور لاۓ - اور ایسا منصوبہ تشکیل اور عمل میں لاۓ کہ من مانے فیصلوں کے تمام راستے مسدود ہو جائیں -
یہ دونون کام راکٹ سائنس کی بجاۓ ذہنی کوفت کے حامل ہیں لیکن دونوں ہی ابتدائی 100 دن میں ممکن ہیں - انکو کیے بغیر نئی حکومت بھی اسی طرح گول دائرے میں گھومتی رہے گی جیسے سابقہ حکومت الجھی رہی - یہ پورا عمل پھر اس سوال پرضرور آکر رکے گا کہ PSO کے لئے نقد اثاثوں کا انتظام کس طرح کیا جاۓ تا کہ فرنس آئل کی اگلی قسط کا انتظام ہو سکے -
جی ہاں اسکا ایک مالیاتی پہلو ہے ، شاید بہت ہی اھم جس کے لئے خاص طریقہ کار کی ضرورت ہے - لیکن ابھی ہم میں سے کچھ اس بات کا بخوبی جائزہ لے رہے ہیں کہ حکومت ملک کو درپیش اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لئے کس حد تک سنجیدہ ہے - اور وہ ابتدائی اقدامات جو اقتدار میں آنے کے شروعاتی دنوں میں لئے جائیں گے وہی اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ان کے مقاصد کس حد تک سنجیدہ ہیں -
تو پھر جیسا کہ میں نے کہا : کھیل شروع کرتے ہیں
ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (1) بند ہیں