توانائی کی ناکامیاں
آپ آس پاس کسی سے پوچھیں کہ ہم توانائی کے بحران میں کیوں مبتلا ہیں؟ آپ کو تین مختلف کہانیاں سننے کو ملیں گی-
ایک بیان تو یہ کہتا ہے کہ یہ سب ادارتی مسلۂ ہے- ایک کیمپ کا یہ ماننا ہے کہ یہ بحران 1994 میں پرائیویٹ پاور پالیسی کے بعد سے توانائی کے سیکٹر میں کسی قسم کی اصلاحات کرنے میں نااہلی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے- اس ناکامی کا کل نتیجہ ہم دونوں حصّوں کی بدترین حالت کی شکل میں بھگت رہے ہیں : نجی سیکٹر کی قیمت کے ساتھ عوامی سیکٹر کی نالائقیاں-
اس سے باہر نکلنے کا راستہ بہرحال یہ ہے کہ اصلاحات کو آگے بڑھایا جاۓ، توانائی کے سیکٹر کو نجی اداروں کے حوالے کرنے کا عمل مکمل کیا جاۓ، جیسا کہ کے ای ایس سی کے معاملے میں، اور پھر نجی ادارے وصولیاں بڑھانے کے لئے راستہ ڈھونڈیں گے، نقصانات کم کریں گے اور مؤثر انداز میں صارفین کی توقعات پر پورا اتریں گے-
ایک اور کہانی یہ کہتی ہے کہ بحران حکومت کی طرف سے غلط قیمتوں کے اطلاق کی وجہ سے پیدا ہوا- یہ کیمپ آپ کو یہ بتاۓ گا کہ ہم ایک عرصے سے اپنے آپ سے جھوٹ بولتے چلے آرہے ہیں اور اب یہ جھوٹ ہماری پکڑ کر رہا ہے- وہ بڑا جھوٹ جو ہم اپنے آپ کو بتاتے آرہے ہیں کہ توانائی -------------- چاہے وہ گیس کی شکل میں ہو یا بجلی کی --- سستی ہے اور بہت ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت قیمتی ہے اور بہت نایاب ہے-
اور یہ جھوٹ پھیلا اس قیمت کی وجہ سے جس پر ہم یہ سامان بیچتے ہیں- جیسا کہ حکومت ہی اس ملک میں گیس اور بجلی کی قیمت متعین کرتی ہے، یہ کیمپ دلیل دیتا ہے کہ ہمیں جو ملتی ہے وہ سیاسی قیمت ہے مارکیٹ کی تعین شدہ نہیں- تقریباً ایک دہائی پہلے کے نو کلاسیکوں کی طرح، ان کے مطابق اس بحران سے نکلنے کا سفر اسی وقت شروع ہوگا جب ہم اپنے آپ سے جھوٹ بولنا چھوڑ دیں گے اور صحیح قیمت کا تعین کریں گے-
ایک اور کیمپ آپ کو یہ بتاۓ گا کہ اس بحران کی شروعات مقامی قدرتی گیس کی پیداوار میں کمی سے ہوئی ہے- اس کمی کا آغاز مشرف کے دور حکومت کے وسط سے ہوا لیکن اس میں سنگینی 2010 سے آئی- گزشتہ چند سالوں میں ہمارا قدرتی گیس کا خسارہ 1 بلین کیوبک فیٹ روزانہ کی انتہا کو پہنچ گیا، اگر سب کچھ یوں چلتا رہا تو یہ 8 بلین کیوبک فیٹ تک پہنچ جاۓ گا، مطلب کچھ بھی نہیں بچے گا-
ہمارے تھرمل پاور جنریشن سسٹم کے لئے گیس کو مناسب ایندھن ہونا تھا، لیکن اس کی کمی نے ہمارے پاس متبادل کی صورت میں مہنگا فرنس آئل درآمد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں چھوڑا- چناچہ گیس کے گھٹتے ہوۓ ذخائر نے توانائی کے سیکٹر میں ہماری پچھلی دو دہائیوں کی گئی سرمایہ کاری کو مشکل میں ڈال دیا ہے-
تینوں بیانات توانائی کے بحران کے ایک الگ پہلو کو چھوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک شروعات کے لئے مختلف حل تجویز کر رہا ہے- ادارتی کیمپ، پاور سیکٹر کمپنیوں کا انتظام و انصرام میں نجی سیکٹر کا بڑھتا ہوا کردار دیکھنا چاہتا ہے، جو کہ آگے چل کر مکمل انتظامی کنٹرول، بلکہ شاید مکمل ملکیت بن جاۓ، جیسا بڑے بینکوں کے ساتھ ہوا-
قیمتوں والے بجلی اور گیس کی قیمتوں کے لئے سخت فیصلے دیکھنا چاہتے ہیں بلکل اسی طرح جیسا 2008 میں پیٹرول اور ڈیزل کے ساتھ ہوا- جب بین الاقوامی قیمتیں، پمپس پر موجود صارف تک براہ راست پنہچا کر ان دو ایندھنوں پر سرکلر ڈیبٹ ختم کر دیا گیا-
گیس کمی والے لوگ گیس سپلائی کے متبادل انتظام پر جلد از جلد کام چاہتے ہیں- مثال کے طور پر طویل فاصلے کی پائپ لائن کے ذریعہ یا ایک ایل این جی ٹرمینل درآمد کر کے ----- نئی پیٹرولیم پالیسی کے ساتھ جو مارکیٹ کی بنیاد پر مزید ملکی کھوج کو فروغ دے-
اپنی منطق میں، یہ کیمپ ایک ایسا بندر کا کھیل تفویض کر رہے ہیں جس کو صرف یہی سمجھ سکتے ہیں- ادارتی لوگ، توانائی کے نوکر شاہی سے پنجہ لڑاۓ بیٹھے ہیں، جبکہ قیمت والے بابا لوگوں نے غیردانشمندانہ طریقے سے توانائی کی قیمتوں میں فوراً اضافے کی باتیں کرنا شروع کر دی ہیں-
گیس کی کمی والے ہمیں اچھوت ریاستوں کے ساتھ مشکوک پائپ لائن منصوبوں میں شامل کر کے بین الاقوامی کمیونٹی کے غیظ و غضب کا خطرہ مول لینے کو کہہ رہے ہیں، یا پھر صحراؤں میں زیر زمین کوئلہ گیس سکیم کی شکل میں سرابوں کا پیچھا کرنے کو کہہ رہے ہیں-
برخلاف بندر کے کھیل کے، ہر ایک اپنی جگہ ٹھیک ہے- لیکن وہ سب اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پچھلی دو دہائیوں میں بدلتی ہوئی دنیا نے ہمارے راستے میں جو چیلنج بھیجے ہیں اسکا جواب دینے میں ناکامی کے پیچھے ایک مؤثر وجہ ہے-
لیکن صاف بات تو یہ ہے کہ ہم ایک بڑے اور بڑھتے ہوۓ توانائی کے بحران کے بیچ میں کھڑے ہیں کیوں کہ پچھلے بیس سالوں سے ہم معاملات کے ساتھ گڑبڑ گھوٹالا کرتے رہے ہیں- ہمارے نظام میں سیاسی شور و غوغا نے توانائی کے بحران سے متعلق بڑے پیمانے پر اقدامات کی کوششوں اور ان میں مسلسل پیشرفت کی ضرورت کو ڈبو دیا ہے-
اس ناکامی کی جڑیں سیاسی ماحول سے ہی پھوٹتی ہیں جس کے اندر پالیسی بنانا اور لاگو کیا جانا ہے، اور توانائی کے شعبے کے اپنےمخصوص مسائل میں سے کم- اس کے ساتھ ہی یہ پتا چلتا ہے کہ توانائی کے بحران کو حل کرنے لئے سب سے اھم جزو کا سیاسی استحکام ہے- ایک ایسی گورنمنٹ جو حکومت کرنے کے مینڈیٹ سے لطف اندوز ہوتی ہو اور قانونی حیثیت کے مسائل میں پہلے سے گھری ہوئی نہ ہو-
اسی طرح کے حالات کا سامنا ہمیں 1997 میں بھی ہوا تھا- اصلاحاتی قانون سازی کے ذریعہ اس میں ترقی بھی ہوئی تھی- لیکن اس لمحے کا وعدہ ایک شخص کے پارہ صفت مزاج کی بھینٹ چڑھ گیا ----- میاں نواز شریف ------- جو بجاۓ اپنی ٹیم کے بہترین دماغوں کو اپنا کام کرنے دینے کے بجائے، ہر جگہ جھگڑا مول لینا زیادہ پسند کرتے تھے-
اس وقت ادارتی اصلاح کے لئے انکا منصوبہ فوج کو واپڈا میں بھیجنے کا تھا- قیمتوں کی اصلاح کے لئے انکا منصوبہ حبکو کی انتظامیہ کو گرفتار کر کے اور خودمختار توانائی پیدا کرنے والوں کو گن پوائنٹ پر رکھ کر قیمت خرید پر دوبارہ مذاکرات کرنے کا تھا-
تب سے، ہمیں ایک حکومت قانونی حیثیت کے مسائل میں گھری ہوئی ملی تو دوسری مخلوط سیاسی کھیل میں جکڑی پائی گئی- اب کیا کہیں کہ ستارے دوبارہ نواز شریف سے جا کر ملے ہیں، جن کے پاس وسیع پیمانے پر پالیسی ایجنڈا کے اطلاق کے لئے تمام سیاسی وسائل موجود ہیں-
چناچہ تمام نظریں ان کے پارہ صفت مزاج پر لگی ہوں گی، انکی ڈٹے رہنے اور لڑنے کے بجاۓ ڈٹے رہنے اور نجات دلانے کی تحریک ہی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا اس لمحے سے ملنے والی امید ہمارا مستقبل روشن کرے گی یا ہماری آنکھوں کے سامنے بیکار ہو جاۓ گی-
ترجمہ: ناہید اسرار