پاکستان

پانچ لاپتہ افراد سپریم کورٹ میں پیش

ان لاپتہ افراد کی سپریم کورٹ میں پیشی کے وقت پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا تاکہ میڈیا کی ان تک رسائی کو روکا جاسکے۔

اسلام آباد: کل بروز منگل کو سپریم کورٹ میں سیکیورٹی حکام نے پانچ مزید لاپتہ افراد کو پیش کردیا، جبکہ سپریم کورٹ نے ان کو سات جبری طور پر لاپتہ افراد کو سپریم کورٹ میں پیش کرنے کی درخواست کی تھی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ جن لوگوں کو ان کے رشتہ داروں کے ہمراہ پیش کیا گیا ہے، وہ آزاد لوگوں کی طرح زندگی گزار رہے تھے۔

خیبر پختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالطیف یوسف زئی نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا ’’شہر کی صورتحال بہت زیادہ خطرناک ہے، اس لیے باقی دو افراد کو حراستی مرکز سے لایا نہیں جاسکا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ جسٹس افضال خان سے گزارش کی گئی ہے کہ باقی دو افراد کو بعد میں کورٹ کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس افضال خان نے لاپتہ افراد کی کیمرہ کے سامنے جانچ پڑتال کی۔

پچیس فروری کو جسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں ایک دو رکنی عدالتی بینچ نے خیبر پختونخوا کی حکومت کو حکم دیا تھا کہ سات لاپتہ افراد کے ایک دوسرے گروپ کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے، بالکل اسی طرح جیسے کہ اتنی ہی تعداد کے لوگوں کو سات دسمبر 2013ء کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

یہ لوگ ستمبر 2011ء میں لاپتہ ہونے والے پینتس افراد کے ساتھ تھے، جن کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ فوجی حکام نے انہیں مالاکنڈ کے حراستی مرکز منتقل کردیا ہے۔یہ پینتس افراد ان چھیاسٹھ غیراعلان شدہ گرفتار افراد کے ساتھ تھے، جن میں یاسین شاہ بھی شامل تھے۔ عدالت کی جانب سے ایک مقدمہ اس معاملے کی شنوائی کے لیے شروع کیا گیا تھا۔

عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ان میں سے اکتیس افراد کو بعد میں قیدی قرار دے دیا گیا، اور باقی پینتس افراد کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ ان میں سے دو افرادفطری وجوہات کی بنا پر وفات پاگئے تھے، ایک شخص سعودی عرب اور گیارہ افغانستان چلے گئے تھے۔

جن لوگوں کو عدالت میں پیش کیا گیا، ان کی شناخت کو میڈیا سے چھپانے کے لیے ان کے چہروں کو کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا،پیش ہونے والے افراد کے نام یہ ہیں: نعیم الرحمان، ذاکراللہ، محمود ہاشم، اعجاز محمد اور محمد صالح۔

مالاکنڈ کے حراستی مرکز کے سپریٹنڈنٹ عطا اللہ متعلقہ دستاویزات کے ساتھ عدالت میں موجود تھے۔

پانچ مزید افراد جن کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ وہ لاپتہ ہیں، کو عدالت میں پیش کرنے کے اقدام کو سراہتے ہوئے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے اسے اچھی پیش رفت اور تاریخ ساز اقدام قرار دیا۔

انہوں نے کہا ’’غیرقانونی طور پر حراست میں لیے گئے اپنے عزیزوں کی بازیابی کے لیے ہماری معروف جدجہد کا بالآخر پھل ملنا شروع ہوگیا ہے۔‘‘ لیکن انہوں نے تجویز پیش کی کہ حقیقی انصاف کے لیے ان لوگوں کو کھلی عدالت میں پیش کیا جانا چاہیٔے۔

ان پانچ لاپتہ افراد اور ان کے عزیزوں کو دو گاڑیوں میں لایا گیا، جنہیں عدالت کے احاطے میں پارک کیا گیا تھا۔

ان لوگوں میں سے بعض نوجوان تھے اور بعض درمیانی عمر کے تھے، ان کو عدالت کے اسی چھوٹے سے کمرے میں لے جایا گیا، جہاں اس سے پہلے لاپتہ افراد کے گروپ کو پیش کیا گیا تھا۔ پولیس کی بھاری نفری نے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا، تاکہ میڈیا کو لاپتہ افراد یا ان کے رشتہ داروں سے بات چیت سے روکا جاسکے۔

عدالت کے اس کمرے کے داخلی دروازے کو بند کردیا گیا تھا۔

عدالت کی کاروائی کے بعد انہیں واپس لے جاتے وقت بھی یہی عمل دوہرایا گیا۔

خیبر پختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالطیف یوسف زئی نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ یہ افراد جنہیں جسٹس اعجاز افضل نے ایک ایک کرکے طلب کیا، ان کی شناخت عطاءاللہ اور ان کے بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی مدد سے کی۔

لاپتہ افراد کی پیشی کے بارے میں ایک رپورٹ کورٹ میں آج بدھ کے روز کی سماعت کے دوران جمع کرائی جائے گی۔