• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کیا تیار ہیں؟

شائع December 15, 2013
ٹیکسٹائل شعبہ، یورپی منڈی میں اپنی مصنوعات کی فوری فروخت کی عمدہ اہلیت رکھتا ہے۔فائل فوٹو۔۔۔۔
ٹیکسٹائل شعبہ، یورپی منڈی میں اپنی مصنوعات کی فوری فروخت کی عمدہ اہلیت رکھتا ہے۔فائل فوٹو۔۔۔۔

برسوں تک برسلزمیں کی جانے والی لگاتار کوششوں کا پھل آخرِ کار جمعرات کو یورپی یونین پارلیمنٹ کے توثیقی ووٹ کی صورت مل گیا، جس کے تحت پاکستانی برآمدات کو یورپی منڈی تک رسائی کے لیے جی ایس پی ۔ پلس اسکیم کے تحت، اگلے ماہ سے وسیع نوعیت کی تجارتی رعایتیں حاصل ہوں گی۔

ڈیوٹی فری یا ترجیحی ڈیوٹی سے فوری طور پر پاکستان کو جو ممکنہ فوائد پہنچیں گے، ان میں خاص طور پر ٹیکسٹائل اور کپڑوں سمیت، پینتیس سو برآمدی مصنوعات کی اقسام کو یورپی منڈی تک آزادانہ رسائی حاصل ہوگی۔

تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس سہولت سے صرف ایک سال کے دوران لاکھوں نئی ملازمتوں کے مواقعوں سمیت، ملک کو پانچ سو ملین سے ایک ہزار ملین ڈالر تک کا اضافی زرِمبادلہ بھی حاصل ہوپائے گا۔

پاکستان کے ایک سب بڑے تجارتی شراکت دار کی طرف سے دی گئی سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے، ملکی معیشت کی میں تبدیلی کا وعدہ پورا کرنے کی خاطر حکومت بند صنعتوں کی بحالی پر توجہ دے تاکہ ٹیکسٹائل، ویلیو ایڈڈ مصنوعات جیسے شعبے غیر ملکی سرمایہ کاری کی توجہ حاصل کرسکیں اور ان شعبوں میں لاکھوں نئی ملازمتیں پیدا ہوسکیں۔

مختصراً یہ کہ جیسا اس اسکیم کے ذریعے گذشتہ سات آٹھ برسوں کے دوران بنگلہ دیش کو فائدہ پہنچا ہے، یورپی یونین کی تجارتی رعایتوں سے پاکستان کی اقتصادی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئے گی اور اگلے چند برسوں کے دوران برآمدی حجم بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔

یورپ کی بہترین منڈیوں تک رسائی سے پہلے، پاکستان کو ملک کے اندر سازگار ماحول کے قیام کی خاطر ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ صنعتیں اس رعایت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے قابل ہوسکیں۔

توانائی کے بڑھتے بحران، ناقص سیکیورٹی صورتِ حال اور نئے منصوبوں کے واسطے محدود بینک سرمایہ کاری کے باعث مینوفیکچرنگ اور دیگر شعبوں میں ملکی و غیر ملکی، دونوں قسم کی تازہ سرمایہ کاری تو بالکل تہ سے جا لگی ہے۔

بجلی اور گیس کی بدترین قلت کے باعث بڑی تعداد میں کارخانے، جن میں زیادہ تر ٹیکسٹائل یونٹس ہیں، پہلے ہی بند پڑے ہیں۔ ان بند صنعتی یونٹوں کی بڑی تعداد پنجاب میں ہے۔ اس صورتِ حال کے باعث بڑی تعداد میں لوگ اپنا کاروبار بنگلہ دیش اور دبئی منتقل کرچکے، جہاں کاروباری لاگت پاکستان کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔

وہ لوگ جو پاکستان میں ہی رہے، انہوں نے پیداواری صنعتوں کے بجائے سٹہ بازی پر استوار کاروبار میں سرمایہ لگانے کو ترجیح دی جہاں منافع کی شرح جھنجھٹوں سے پاک، فوری اور بہتر ہے۔

صنعتوں میں سرمایہ کاری کی راہ میں بہت زیادہ چیلنجز درپیش ہیں۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل شعبہ، یورپی منڈی میں اپنی مصنوعات کی فوری فروخت کی عمدہ اہلیت رکھتا ہے لیکن ان جیسی صنعتوں میں تازہ سرمایہ کاری کے بغیر، جی ایس پی ۔ پلس اسٹیٹس سے بھرپور فائدہ حاصل کرنا مشکل ہوگا۔

بلاشبہ، حکومت بزنس مین کے اعتماد کی بحالی، مینوفیکچرنگ شعبے میں سرمایہ کاری اور ملازمتوں کے نئے مواقع تخلیق کرنے کی خاطر اقدامات کررہی ہے لیکن اب تک جو کر پائی ہے وہ کافی نہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ اُن تمام پالیسیوں اور فیصلوں کا ازسرِ نو جائزہ لے جو بلواسطہ یا بلاواسطہ، سرمایہ کاروں کے جذبات متاثر کرسکتے ہیں، ساتھ ہی اسے اپنی ترجیحات بھی ازسرِ متعین کرنی چاہیے۔

سامنے جو طویل سفر درپیش ہے، اسے طے کرنے کے لیے بجلی اور گیس کا رخ غیر پیداواری شعبے سے صنعتوں کی طرف موڑنا پہلا قدم ہوسکتا ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024