ناجائز لینڈ الاٹمنٹ
زمین ایک بار پھر پلٹ کر خبروں میں آچکی، خاص طور پر عوامی ملکیت (پبلک پراپرٹیز) اور سرکاری املاک کہ جس پر عوام اور منتخب نمائندوں نے حق بے جا کا دعویٰ کیا ہے۔ بلاول ہاؤس کی نام نہاد بیرونی دیوار، کراچی سے منتخب تحریکِ انصاف کے اکلوتے رکن قومی اسمبلی کے واسطے مسائل کی علامت بن چکی۔
جیسا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی درخواست کی تھی کہ وزیرِ اعظم کی اُس خصوصی اسکیم میں جو اب ختم کی جاچکی، ان کے واسطے خصوصی طور پر پلاٹ الاٹ کردیا جائے لیکن ابتدا کرتے ہیں بلاول ہاؤس کی دیوار سے۔
اگرچہ کوئی شک نہیں کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے بچوں کو بدستور خطرات لاحق ہیں اور یقین ہے کہ پی ٹی آئی نے دیوار کا معاملہ پارٹی پر پی پی پی کی حالیہ تنقید کے ردِ عمل میں اٹھایا، یہ بہت کچھ واضح ہوچکا ہے:
سابق صدر زرداری کی رہائش گاہ کی بیرونی دیوار کے ذرا فاصلے سے گذرنے والی سڑک کی بندش غیر ضروری، غیر منصفانہ اور کراچی کے فروغ پذیر رہائشی و تجارتی قرار دیے گئے علاقے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا باعث ہے۔
یہ اس لیے بدستور قائم رہی کہ جن لوگوں نے سڑک کی بندش اور دونوں جانب دیوار کھڑی کرنے کے بعد، برابر کے تنگ راستے سے لوگوں کو برسوں تک گذرنے کی اجازت دی، انہیں تناسب یا ملکیت کا احساس نہیں تھا۔ یہ رکاوٹ اس لیے بھی برقرار ہے کہ عوامی املاک اور مقامات کو نجی طور پر استعمال کرنے کا سب سے پہلا حقدار عوامی نمائندوں کو سمجھا جاتا ہے۔
اس کے بعد، یہاں وہ درخواست ہے کہ جس میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جانب سے اسلام آباد کے مہنگے ترین علاقے میں پلاٹ الاٹ کرنے کی درخواست کی گئی تھی، اس پراپرٹی کو چار سال بعد خود انہوں نے ہی منسوخ کردیا تھا۔
بلاشبہ، لاگو قواعد کے مطابق درخواست دینا قطعی غیر قانونی کام نہیں لیکن یہاں مسئلہ خود ان قواعد کے اندر پوشیدہ ہے، جنہیں شوکت عزیز نے بطور وزیرِ اعظم متعارف کیا اور جس کے تحت سول سرونٹس کے لیے عوامی زمین (پبلک لینڈ) کے الاٹمنٹ پر سوالیہ نشان لگنا چاہیے۔ سرکاری حکام ریٹائرمنٹ پر کیوں سرکاری پلاٹ کے مستحق ہیں؟
اکثر ان پلاٹوں پر سوال اٹھے ہیں جو ملک کے نہایت بیش قیمت علاقوں میں الاٹ کیے جاتے ہیں۔ بلاشبہ کئی دہائیوں تک سرکاری افسران رہنے والوں کو ریٹائرمنٹ پر اور ملک کی با اثر شخصیات کو مراعات کی شکل میں (کوڑیوں کے دام) قیمتی پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا طریقہ بہت غلط ہے۔
یقینی طور پر ریاست کی ملکیت، قیمتی زمینوں کو اس طرح الاٹ کیے جانے کا طریقہ قطعی طور پر مناسب نہیں اور اکثر و بیشتر زمینوں کی الاٹمنٹ کے ایسے معاملات میں فوج اور اس کی اُن رہائشی منصوبوں کا حوالہ دیا جاتا ہے، جوملک بھر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
سرکاری زمینوں کی مکمل طور پر غیر منصفانہ الاٹمنٹ کی سب سے بڑی مثال ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز اور اس میں کی جانے والی سرمایہ کاری ہے، جس نے فوج کے متعدد مہروں کو کروڑ پتی بنادیا جبکہ یہاں اس طرح کی اسکیموں کی ضرورت کا کوئی حقیقی جوازبھی نہیں ہے۔
یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی نمائندوں اور سرکاری حکام کو سرکاری ملکیت کی زمینوں کا مستحق بنانے اور عوامی نمائندوں کو عوامی املاک کا نجی استعمال کرنے کا حق دینے والے نظام کی تطہیر کرتے ہوئے، معاملات کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے اور اس ضمن میں غیر جانبداری پر مبنی نئے قواعد و ضوابط کو سختی سے نافذ کیا جائے۔