پاک انڈیا تجارتی مذاکرات کل سے دوبارہ شروع ہوں گے
اسلام آباد: پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سیکریٹری سطح کے تجارتی مذاکرات کل بروز منگل چودہ جنوری سے ایک مرتبہ پھر بحال ہو رہے ہیں۔
تقریباً سولہ مہنیوں کے تعطل کے بعد منعقد ہونے والا یہ اجلاس جامع مذاکرات کو جاری رکھنے کا ایک حصہ ہے، کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان اہم مذاکرات ہندوستان کے عام انتخابات کے بعد ہی ہوں گے، جبکہ ہندوستانی پارلیمنٹ یعنی لوک سبھا کی مدت رواں سال 31 مئی کو ختم ہوجائے گی۔
منگل کو شروع ہونے والے اس اجلاس میں امکان ہے کہ 'آزاد تجارت' میں درپیش رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے ایک نئی حکمتِ عملی پر اتفاق کرلیا جائے۔
یاد رہے کہ دونوں ملک اس سے قبل بھی روڈ میپ وضح کرنے میں ناکام رہے تھے جس میں 31 دسمبر 2012ء تک منفی فہرست مرتب کرنے پر زور دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ کے وزیرِ تجارت خُرم دستگیر سارک بزنس کانفرنس میں شرکت کے لیے 16 جنوری کو نئی دہلی پہنچیں گے، جبکہ اس موقع پر امکان ہے کہ وہ اپنے ہندوستانی ہم منصب سے بھی ملاقات کریں۔
سیکریٹری سطح کے اس اجلاس کے بعد یہ بھی امکان ہے کہ دونوں ملکوں کے وزیر آزاد تجارت کے تسلسل کے لیے نئے ٹائم لائنز کا اعلان کریں۔
سفارتی ذرائع اس ملاقات کو ایک نئی 'شروعات' قرار دے رہے ہیں، کیونکہ منفی فہرست اور نان ٹیرف رکاوٹوں میں پیش رفت کے لیے سیاسی حمایت حاصل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان آزاد تجارت میں جو اہم مسائل درپیش ہیں ان میں واہگہ بارڈر کے ذریعے ایک سو سینتیس کے بجائے چھ ہزار تجارتی سامان کی درآمد، چوبیس گھنٹے تجارتی سامان کی کلیئرنس کی سہولت اور بحری جہاز کے ذریعے سامان کی ترسیل کا عمل شامل ہیں۔ یہ چھ ہزار اشیائے صرف پہلے ہی بندرگاہوں کے ذریعے درآمد کی جاسکتی ہیں۔
ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان مسائل پر اتفاق کے لیے اصولی فیصلہ کیا ہے، لیکن اس کا انحصار ہندوستان کے جوابات پر ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر واہگہ کے راستے تجارت کے لیے کوئی نیا معاہدہ طے پاتا ہے تو ہندوستان کو پاکستان اور دیگر جنوب ایشیائی ملکوں کے لیے اپنی حساس فہرست کو تیس فیصد کم کرنا پڑے گا۔
یہ آئٹمز جنوبی ایشیا فری ٹریڈ ایریا کی فہرست میں ہیں جن کی ڈیوٹی میں کمی نہیں کی جاسکتی۔ ان آئٹمز کو فہرست سے ختم کرنے سے پاکستانی مصنوعات کے لیے مارکیٹ تک رسائی میں اضافہ ہوگا۔
یاد رہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 2012ء میں تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنے اور اس میں سہولتیں فہرام کرنے کے لیے تین معاہدے ہوئے تھے، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔