”پاکستان کو ایک ہزار اتاترک کی ضرورت ہے“
کراچی: ”ہم ایک بیمار قوم ہیں، نہ کہ ایک ناکام ریاست۔“ ان خیالات کا اظہار مصنف، دانشور، سابق سینیٹر اور سابق وفاقی وزیرِ اطلاعات جاوید جبار نے منگل کو اپنے ایک لیکچر کے دوران کیا، یہ لیکچر انہوں نے آغا خان یونیورسٹی کے سکستھ سینس فورم لیکچر سیریز کے ایک حصے ”بیمار ریاست۔ تیار قوم“ میں دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ”سعودی عرب، ویٹی کین، اسرائیل، نیپال اور مالدیپ مذہب کی بنیاد پر قائم ریاستیں ہیں، لیکن پاکستان ان سے مختلف ہے۔“ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سلطنت سعودی عربیہ نے درحقیقت ایک قبیلے سے ملک کی صورت اختیار کی تھی، ہم پاکستان ایک مذہبی رہنما نہیں رکھتے جیسا کہ ویٹی کین میں پوپ ہیں، پاکستان اسرائیل کی طرح ایک مقدس اور ارض موعودہ نہیں ہے اور ہمارے لیے نیپال کے شہری ہونے کے لیے ہندو ہونا بھی ضروری نہیں ہے اور نہ ہی محض سنی مسلمان مالدیپ سے تعلق رکھ سکتے ہیں۔
”لہٰذا ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہماری پرورش انوکھے طریقے سے ہوئی ہے۔ پاکستان کا خیال اپنی حیثیت میں منفرد تھا، اس کا نام دراصل اس خطے کے مختلف ناموں کا مخفف ہے، جس کے معنی پاک سرزمین ہے۔“
”لہٰذا پاکستان کا خیال منفرد اور شاندار تھا۔“ انہوں نے ایک لمحے کے توقف کے بعد اپنا جملہ مکمل کیا ”لیکن وہ نقائص سے پاک نہیں تھا۔“
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”کچھ کہیں گے کہ ایک دشمن ملک کے دونوں کناروں پر ملک کے دو حصوں کے ساتھ پاکستان کی ساخت ناقص تھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ تھی کہ طویل فاصلے کے باوجود آپ اپنے خیالات اور فلسفے کا ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرسکتے تھے۔ لیکن اس پر کام نہیں کرنے دیا گیا۔“
ریاست کی تشکیل کی جانب واپس پلٹتے ہوئے جاوید جبار نے یاد دلایا کہ پاکستان راتوں رات تشکیل پانے والی ایک ریاست تھی جو تقریباً دس ہفتوں کے نوٹس پر وجود میں آئی تھی۔ جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں، برطانیہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس خطے سے نکلنا چاہتا تھا، لہٰذا وہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو لے کر آئے تاکہ وہ ایک مینڈیت کے ساتھ اٹھارہ مہینوں کے اندر اندر ان کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کی دیکھ بھال کریں۔ لیکن ماؤنٹ بیٹن اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آزادی کی شکل میں اس کا حل دے دیا۔اسے لے لو یا چھوڑ دو۔
انہوں نے کہا کہ برطانوی اور ہندوستانی ہندوستان کی تقسیم سے خوش تھے، لیکن قائداعظم محمد علی جناح کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، اس لیے کہ وہ پہلے شخص تھے جو اس پر راضی ہوئے تھے۔ ان کی پریشانی یہ تھی کہ ان کے ڈاکٹر نے انہیں بتایا تھا کہ ان کی زندگی کا صرف ایک سال باقی رہ گیا ہے۔
خود جناح کا کہنا تھا کہ پاکستان کلکتہ کے بغیر ایک ایسے شخص کی مانند ہے، جس کا دل نہیں ہو۔ لیکن جب نقشہ سامنے آیا تو انہیں اس پر رضامند ہونا پڑا، اس لیے ان کے پاس بحث کرنے کے لیے وقت نہیں تھا۔
جاوید جبار نے کہا کہ 1947ء میں چودہ اور پندرہ اگست کو پاکستان اور انڈیا کی آزادی کی تاریخ مقرر کی گئیں، اس لیے کہ وہ ماؤنٹ بیٹن کے سامنے جاپانیوں کے ہتھیار ڈالنے کی دوسری سالگرہ منانا چاہتے تھے۔ اس سارے معاملے میں اس نے اپنی انا پیش نظر رکھی تھی۔
انہوں نے کہا ”تو اس طرح راتوں رات ایک ریاست دنیا کے نقشے پر اُبھر کر سامنے آگئی۔ اچانک لاکھوں مہاجرین آپ کے حوالے کردیے گئے، اور ان کی بڑی تعداد کو پنجاب، سندھ اور فرنٹیئر نے جذب کرلیا۔ پھر بھی دس لاکھ افراد ماؤنٹ بیٹن کی انا کی وجہ سے ذبح کردیے گئے۔ برسوں بعد انہوں نے خود اس بات کا اعترف کیا تھا۔
انہوں نے فلسفیانہ تجزیہ پیش کیا کہ ”ہم نہ تو ایک نسلی اور نہ ہی لسانی قوم ہیں۔ ہم روحانی معنوں میں ایک قوم ہیں۔ ایک نسلی قوم تیار ہونے میں چند صدیاں درکار ہوتی ہیں، لیکن ہم کل کے لیے خواب رکھتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان کا مستقبل ہی پاکستان کی تاریخ بنے گا۔“
جاوید جبار نے کہا”وہ کہتے ہیں کہ ہندوستان ایک تاریخ رکھتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا تعلق خطے سے ہوتا ہے۔ ہندوستان کی نئی تاریخ 1947ء سے قیامِ پاکستان کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے پڑوسی توسیع، لچک اور جمہوریت کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔ ہندوستان نے 1948ء میں حیدرآباد پر قبضہ کرلیا، اور اس کے علاوہ 548 رجواڑوں کو نگل گیا۔ ہم نے بھی قلات، بہاولپور وغیرہ پر قبضہ کیا۔ لیکن ہندوستان نے ریاستوں اور رجواڑوں پر قبضہ کرنے کے بعد عوام کی نسل کو تسلیم کرنے میں لچک سے کام لیا اور انہیں مزید صوبے دیے۔ دوسری جانب پاکستان میں ایک وقت میں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کو زبردستی ملا کر ون یونٹ بنا دیا گیا۔ حقیقی معنوں میں پاکستانی ریاست کا آغاز 1972ء سے ہوا۔“
بحیثیت ایک قوم ہماری ناکامی کے موضوع کی جانب بڑھتے ہوئے جاوید جبار نے کہا کہ پاکستان میں کم و بیش چار کروڑ ستر لاکھ گھرانے موجود ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ ”اگر ہم ان میں سے تین کروڑ کو غریب اور ٹیکس دینے سے معذور تصور کرلیں، تو آخر پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں صرف دس لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں؟“
یہاں آبادی میں اضافے پر بھی کنٹرول کی ضرورت ہے۔ تاحال پاکستان میں محض تین ہزار خاندانی منصوبہ بندی کے یونٹ کام کررہے ہیں، دس میں سے صرف تین شادی شدہ جوڑے ایسے ہیں جو مانع حمل دوائی استعمال کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان تک رسائی نہیں رکھتے۔
پاکستان کے روشن اور امید افزاء پہلوؤں کو سامنے لاتے ہوئے انہوں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن، نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارتی (نادرا)، سپریم کورٹ آف پاکستان، کارپوریٹ اینڈ فنانشل سیکٹر اور ڈائیو بس سروس جیسے اداروں کی مثال پیش کی، جنہوں نے اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں، اور ہمیں ہماری منزل پر بروقت پہنچایا ہے اور پاکستانیت کے ارتقاء کو پروان چڑھایا ہے۔
”جب آپ کہتے ہیں کہ آپ بلوچ ہیں، یا سندھی ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اگر آپ جانتے ہیں کہ آپ سب ایک بڑی شناخت کا حصہ ہیں۔ اگر ہم ابھی اس وقت یہان قومی ترانے کی دھن بجائیں گے تو آپ سب کھڑے ہوجائیں گے۔ آپ نے ایک شناخت سے خود کو منسلک کرنا شروع کردیا ہے۔
ہزاروں ایسے خواتین و حضرات موجود ہیں جو دیانت داری کے ساتھ ملک کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور سیاست میں آنے کے خواہشمند ہیں۔
انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ”ایک اتاترک کا وقت اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ پاکستان کو ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے ہمیں ایک ہزار اتاترک کی ضرورت ہے، لہٰذا آپ، میں اور ہم پاکستان کو ایک مستحکم ریاست بنائیں گے۔ہمیں یہ مل جل کر کرنا ہے۔“