• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

قانون اور انسانی حقوق

شائع February 6, 2014
قوانین سازی میں انسانی حقوق کا احترام، چیف جسٹس کا حکومت اور پارلیمنٹ کے لیے واضح پیغام۔ فائل فوٹو۔۔۔۔
قوانین سازی میں انسانی حقوق کا احترام، چیف جسٹس کا حکومت اور پارلیمنٹ کے لیے واضح پیغام۔ فائل فوٹو۔۔۔۔

بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ کچھ سالوں سے جس میں جکڑے ہیں، اس سے نکلنے اور انصاف فراہم کرنے کے واسطے، پاکستانی معاشرے کے تمام ترطبقات نے غالب اعتماد کا پورا وزن عدلیہ کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ اور اب یہ وقت سے متعلق ہے کہ نتیجے میں گریز سامنے آیا اور معاملات تناظر پر چھوڑ دیے گئے۔

یہی وہ سب کچھ ہے جس پر، چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے پیر کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد کے استقبالیے میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔ چیف جسٹس نے نفاذِ قانون میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیے بغیر، قانون کو موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

انہوں نے قانون کے نفاذ میں عدلیہ کے کردار پر غور طلب بات کی لیکن ساتھ ہی ایسے اشارے دیے جن کا تعلق ریاست اور معاشرے کی بنیادی جمہوری اقدار اور ریاست کے مختلف عناصر کے فرائض سے بھی ہے۔

یہ تمام ایک نہایت عمدہ توازن قائم کرتے ہیں جن کا عام حالات میں حاصل کیے جانا مشکل ہے اور جس طرح کے شورش زدہ حالات کا ان دنوں پاکستان کو سامنا ہے، ایسے میں یہ با آسانی پریشان کُن حالات پیدا کرسکتے ہیں۔ جسٹس جیلانی نے اپنے خطاب میں 'دہشتگردی کے ماحول، شدت پسندی، فرقہ واریت اور ماورائے عدالت قتل' کی بات کی ہے۔

انہوں نے اس پر بھی بحث کی کہ کس طرح، خاص طور پر بعد از نائین الیون تناظر میں، کمزور ترین ریاستیں عالمی سطح پر سلامتی کے لیے خطرہ سمجھی جارہی ہیں۔

اس کے بعد انہوں نے امور کی انجام دہی میں عدلیہ کے موثرکردار کو معاشرے کے بڑے شراکت داروں، پارلیمنٹ اور حکومت، کے برابر قرار دیا۔

پارلیمنٹ کو مناسب قوانین منظور کرنے چاہئیں، حکومت کو انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والے قوانین نافذ کرنے چاہئیں اور تمام شہریوں کو عدالتوں سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے لیکن اس سے پہلے، عدم برداشت کا مقابلہ کرنے کے لیے گھر اور اسکول کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

یہ پاکستان کی عمومی صورتِ حال کے بارے میں سادہ سے بیان یا اس کے حل سے کہیں آگے کی بات ہے۔ جسٹس جیلانی نے 'غیر معمولی صورتِ حال' سے نمٹنے کے لیے ریاست کے متعارف کردہ سخت قوانین کے پس پردہ، چیلنجوں کا اظہار کیا ہے۔

حکومت پاکستان نے کچھ عرصہ پہلے تحفظِ پاکستان آرڈیننس نافذ کیا تھا اور اب وہ اس سیاہ قانون کو منظوری کرانا چاہتی ہے۔ اس قانون کو حال ہی میں، عدالت میں بھی چیلنج کیا جاچکا۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے مختلف گروپوں اور بہت ساری سیاسی جماعتوں نے بھی اسے مسترد کرتے ہوئے، پارلیمنٹ سے کہا ہے کہ وہ پی پی او کو، تحریری اور غیرتحریری انسانی حقوق کے منافی، قوانین سے پاک کریں۔

قانون کی حکمرانی کے لیے ایک اعلیٰ ترین جج کا یہ منصفانہ اور درست مشاہدہ، منصفانہ قوانین کے نفاذ کی مہم چلانے والوں کے لیے ایک بہتر اور اچھی مثال ثابت ہوگا۔

اگرچہ جسٹس جیلانی کے ریمارکس، گذشتہ چند برسوں کے دوران اسی کرسی سے انتظامیہ اور پارلیمنٹ کو کرائی گئی یاد دہانیوں کی طرح سخت لب و لہجے میں نہ تھے لیکن پھر بھی، اس کے ذریعے حکومت کو واضح پیغام دیا گیا ہے:

'پھیلتی انتہا پسندی' سے نمٹنے کے واسطے، اقدامات وضع کرتے ہوئے، زیادہ سے زیادہ، قانون کے دائرے میں رہا جائے۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024