جبری طور پر لاپتہ ہونے والے ایک اور شخص گھر پہنچ گئے
اسلام آباد: کل سپریم کورٹ کو مطلع کیا گیا کہ لاپتہ افراد میں سے ایک اور اپنے گھر پہنچ گئے، جبکہ تین دیگر افراد مختلف حراستی مراکز میں زیرِ حراست پائے گئے ہیں۔ ایسے لاپتہ افراد کی کل تعداد اب پانچ ہوگئی ہے جنہیں اس ہفتے کے دوران تلاش کرلیا گیا ہے۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ کو مطلع کیا گیا تھا کہ عتیق الرحمان جو 19 مہینوں سے لاپتہ تھے، اب اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ انہیں مبینہ طور پر شیخوپورہ سے اُٹھایا گیا تھا۔
اور جمعرات کے روز ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ ایک اور لاپتہ شخص خاور محمود بھی اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔
پنجاب پولیس کی انوسٹی گیشن رپورٹ کے مطابق خاور محمود کو مبینہ طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکاروں نے گزشتہ سال چھبیس جون کو بہاولنگر ڈسٹرکٹ کے علاقے فورٹ عباس میں ایک ڈسٹری بیوشن کمپنی سے اُٹھایا تھا۔
انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلیجنس(ایم آئی) نے اس الزام کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ان کی تحویل میں کبھی نہیں تھے۔
ان کے چھوٹے بھائی عامر محمود جو لشکرِ طیبہ کے سرگرم کارکن تھے، ان کو انٹیلیجنس ایجنسیوں نے گرفتار کرکے مجرم قرار دیا تھا اور عمرقید کی سزا سنائی تھی۔
بعد میں پشاور ہائی کورٹ نے عامر کو بری کردیا تھا اور اس کے بعد سے وہ اور ان کی اہلیہ لاپتہ تھے۔
ایک کشمیری حافظ محمد جمیل، جنہیں بیس جنوری 2011ء کو مسریال روڈ، راولپنڈی میں جبکہ حماد عامر جنہیں سترہ نومبر 2009ء کو ویسٹرج میں ان کے گھروں سے اُٹھایا گیا تھا، کوہاٹ میں ایک حراستی مرکز میں پائے گئے۔
اسی طرح ہدایت شاہ جو اکیس دسمبر 2009ء کو لاپتہ ہوگئے تھے، مالاکنڈ کے حراستی مرکز میں پائے گئے۔
اسی دوران جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دوججوں پر مشتمل بینچ نے ڈاکٹر عابد شریف اور منصور مہدی کی گمشدگی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کی۔
عدالت نے قرار دیا کہ ریاست کو لازمی طور سے پالنے سے لے کر قبر تک اپنے شہریوں کی خیرخواہی کرنی چاہیٔے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ’’یقیناً ہم ایک آئیڈیل فلاحی ریاست نہیں ہیں، لیکن ہمیں کسی بھی صورت اپنے شہریوں کو بے آسرا نہیں چھوڑ دینا چاہیٔے۔‘‘
ڈاکٹر عابد شریف اور منصور مہدی دونوں ہی سولہ ستمبر 2005ء کو روالپنڈی سے پشاور پہنچنے کے بعد لاپتہ ہوگئے تھے۔
عدالت یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئی کہ ڈاکٹر عابد شریف کی اہلیہ زاہدہ شریف کو پنجاب کے محکمہ صحت کی جانب سے ایک نوٹس موصول ہوا تھا،(جہاں ان کے شوہر کام کرتے تھے)، اس نوٹس میں محکمے نے خبردار کیا تھا کہ ڈاکٹر شریف کو ایک ہفتے کے اندر اندر اپنی ملازمت پر دوبارہ کام شروع کردینا چاہیٔے، دوسری صورت میں انہیں برطرفی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ نوٹس جبری طور پر لاپتہ افراد کے انکوائری کمیشن کی اس ہدایت کے بعد جاری ہوا تھا، جس میں محکمہ صحت کو کہا گیا تھاان کی تنخواہ کا مسئلہ حل کیا جائے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ’’ریاست کی یہ کڑی ذمہ داری ہونی چاہیٔے کہ وہ قانون کا نفاذ کرے، وہ پابند ہے کہ ایک ایسے شخص کو تلاش کرے جو پُراسرار طور پر لاپتہ ہوگیا ہے۔‘‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ فرنٹیئر کور پشاور اور انٹیلیجنس ایجنسیاں دونوں ہی نے اس بات کو مسترد کردیا تھا کہ یہ دو لاپتہ افراد ان کی تحویل میں ہیں۔
اس موقع پر عدالتی بینچ کے دوسرے رکن جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کے حکام ہمیشہ اس بات سے انکار کرتے رہے ہیں کہ لاپتہ افراد ان کی تحویل میں ہیں، لیکن جب عدالت نے اصرار کیا تو انہوں نے ان افراد کو پیش کردیا۔
عدالت نے پنجاب حکومت کو حکم دیا کہ وہ ڈاکٹر عابد شریف کی ملازمت سے برطرفی کے معاملے کا جائزہ لے۔ عدالت نے طارق کھوکھر سے کہا کہ لاپتہ افراد کے ٹھکانے کے بارے میں حکام سے تازہ ترین ہدایات حاصل کریں۔
جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم ایک دوسرے عدالتی بینچ کو مطلع کیا گیا کہ آٹھ لاپتہ بلوچ افراد میں سے دو محمد بلوچ اور عبدالغفار کوہلو میں فراری کیمپ میں پائے گئے تھے۔ باقی افراد کا اتہ پتہ معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو مطلع کیا کہ فوجی حکام بلوچ افراد کی جبری گمشدگی میں ملؤث دو افسران پر آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان میں سے ایک افسر میجر معین (اسامہ) پر شبیر احمد کو کوئٹہ سے اغوا کرنے کا الزام ہے۔