• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

قومی سلامتی پالیسی: مشکل اہداف کے لیے معجزہ درکار ہوگا؟

شائع February 28, 2014
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان۔ —. فائل فوٹو اے پی پی
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان۔ —. فائل فوٹو اے پی پی

اسلام آباد: حکومت نے قومی سلامتی کی نئی پالیسی میں اپنے لیے کچھ مشکل اہداف مقرر کیے ہیں۔

حکومت کا ارادہ ہے کہ ایک سال کے اندر قومی تعلیمی نظام کے ساتھ مسجد اور مدرسوں کو ضم کردیا جائے، قانونی اصلاحات کا بیڑا اُٹھایا ہے، چھ مہینوں کے اندر انتہاپسندوں کے خلاف ایک قومی روایت کی تشکیل، انٹر سروسز انٹیلی جنس اور سولین ایجنسیوں کے درمیاں انٹیلی جنس معلومات کا اشتراک کو بہتر اور ہم آہنگی کو مضبوط بنانا شامل ہیں۔

اس خطرناک منظرنامےسے نمٹنے کے لیے اس پالیسی میں جو نسخہ پیش کیا گیا ہے، اسے دراصل پُرانے بیانات کو چھان پھٹک کر نکالا گیا ہے۔ سولین اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان انٹیلی جنس کے اشتراک کو بہتر بنانا، کرمنل جسٹس سسٹم کی تعمیر نو، تربیت اور سازوسامان کی فراہمی کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط بنانا، اور مسجد اور مدرسوں کی بنیاد پر چلنے والے تعلیمی نظام کو مجموعی تعلیمی نظام کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا۔

داخلی سلامتی کے ایک ڈائریکٹوریٹ کی تشکیل کا قیام اس پالیسی کی بنیاد کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس کے ذریعے 33 سول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی کو مضبوط بنایا جائے گا۔

یہ ڈائریکٹوریٹ ایک انٹیلی جنس اور تجزیے کا مرکز ہوگا، جو چار انٹیلی جنس گروپس آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس، قانون نافذ کرنے والے وفاقی ادارے اور پولیس کا انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے نقل پر مشتمل ہوگا۔

چوہدری نثار نے ماضی میں بجا طور پر اشارہ کیا تھا کہ سولین اور ملٹری انٹیلی جنس اداروں میں مؤثر ہم آہنگی کی کمی ریاست مخالف عناصر کو ان کی منفی سرگرمیوں سے روکنے میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔

نئی پالیسی کے ذریعے حکومت بہتر سازوسامان سے لیس اور مناسب تربیت سے آراستہ ایک فوجی انٹیلی جنس نیٹ ورک متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا عملی کنٹرول اس کے پاس ہوگا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ایک سول حکومت کے لیے یہ بہت مشکل کام ہوگا۔

جولائی 2008ء کے دوران پیپلزپارٹی کی حکومت نے آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کے کنٹرول میں دینے کی کوشش کی تھی، لیکن فوجی قیادت کی ناراضگی اور سخت ردّعمل کے بعد اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا تھا۔

نئی پالیسی کے نفاذ کے بعد داخلہ ڈویژن ایک وزارت کی قیادت میں کام کرے گا۔

مدرسے کے نظام میں ماضی کے دوران بھی اصلاحات کی کوششیں کی گئی تھیں، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے مدرسوں میں اصلاحات کے لیے ایسے ہی مقاصد کے ساتھ بہت زور و شور کے ساتھ دس کروڑ ڈالرز کی مالیت کا ایک منصوبہ شروع کیا تھا،کہ انہیں باضابطہ تعلیمی نظام کی سطح پر لایا جائے گا۔

اس کے باوجود کہ مذہبی جماعتوں کا ایک مجموعہ متحدہ مجلس عمل کے ساتھ ان کا اتحاد تھا، لیکن جنرل مشرف مدرسوں کے اسباق میں جدید موضوعات متعارف کرانے کے لیے مختلف فرقوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا نہیں کرسکے۔

نئی پالیسی کے ذریعے مدرسے میں دی جانے والی تعلیم کے اندر پرتشدد انتہاپسندی کے غیر روایتی خطرات، فرقہ واریت، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا سُراغ لگایا جائے گا۔

اس کے علاوہ اس دستاویز میں مدرسوں میں غیرملکی امداد، پُرتشدد مذہبی رویوں اور عدم برداشت کی تعلیم کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

گزشتہ سال ستمبر کے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں بائیس ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ مدرسے موجود ہیں، ان کے علاوہ ہزاروں مدرسے ایسے ہیں، جنہوں نے پچھلی حکومتوں کے رجسٹریشن کے اقدام کی مخالفت کا فیصلہ کیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی اُن عظیم ذمہ داریوں میں سے ایک ہوگی، جن میں چوہدری نثار پہلے بُری طرح ناکام رہے تھے۔

پالیسی کے مطابق انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کے خلاف قومی رویّے کی تشکیل ایک نظریاتی جواب کی بنیاد پر ہونی چاہیٔے اور جس میں مذہبی علماء، دانشوروں، میڈیا اور تعلیمی اداروں کی مدد بھی شاملِ حال رہنی چاہیٔے۔

پاکستان کا معاشرہ جو خاص طور پر مذہبی خطوط پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اس کو ایسی صورتحال سے نکالنے اور ایک قومی رویّے کی تشکیل کے لیے چوہدری نثار کو کوئی معجزہ درکار ہوگا۔

ایک تعلیمی ماہر کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے جہاں لوگوں کو انتہاپسندی نے لوگوں کو مفلوج کر رکھا ہو، وہاں نتائج حاصل کرنے کے لیے مہینے نہیں بلکہ دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔

اس پالیسی پر کامیابی کے ساتھ عمل کرنے کے لیے موجودہ لیگل فریم ورک پر ایک جامع نظرثانی کرنی ہوگی، خاص طور پر ملک کے کرمنل جسٹس سسٹم پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔

انتہائی اہم قانونی اصلاحات کے لیے بلاتخصیص اتفاقِ رائے بھی درکار ہوگا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Syed Mar 01, 2014 05:07am
پاکستان میں اتحادِ امت وقت کی فوری ضرورت ہے تاکہ ملک سے دہشتگرد لشکروں، سپاہوں اور طالبانِ خون کا قلع قمع کرنا ممکن ہو سکے۔ ساتھ ہی اتحادِ امت کے ذریعے اِن تکفیریوں کے ہمدردوں، خیرخواہوں اور سیاسی ونگز کو نتھ ڈالنا بھی انتہائی ضروری ہو گیا ہے خواہ اُن کا تعلق کسی غیر منور کی جماعتِ 'اسلامی' سے ہو یا طالبان خان کی 'غیر منصفانہ' تحریک سے ہو یا پھر بابائے خوارج کی جمعیت علمائے 'اسلام' سے ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔ بے لگام عناصر بشمول علمائے سُو کو لگام ڈالنی ہی پڑے گی طالبان کی سرپرستی اور حمایت کو ریاست کے خلاف ایک سنگین جرم قرار دیا جائے،اور پھر جو لوگ اس جرم کے مرتکب ہوں ان سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے۔ ملک سے انتہاپسندی، نام نہاد فرقہ واریت اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سخت ترین سزا کا دیا جانا بھی وقت کی اولیں ضرورت ہے۔
Israr Muhammad Mar 01, 2014 11:17pm
حکومت نے انسداد دہشتگردی پالیسی اسمبلی میں پیش کردی ھے جوکہ خوش ائند ھے اب یہ پارلیمنٹ کا کام ھے کہ وہ اس پر بحث کریں اور اس میں بہتری کیلئے مفید اور مثبت تجاویز دیں آگر ایسا ھوگيا تو یہ بہت بڑا کارنامہ ھوگا تمام حفیہ اداروں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا بہت درست اقدام ھوگاریپذ رسپانس فورس بنانا بھی مثبت فیصلہ ھے حکومت کا اصل امتحان اس پر عمل درامد سے شروع ھوگا اس میں بہت پیچیدہ معاملے ھیں جس پر حکومت کو بہت زیادہ مشکلات اسکتی ھیں سب سے بڑی مشکل ائی سی ائی ھوگی کیا وہ اس پالیسی کی حمایت گريگی یا نہیں تمام حفیہ اداروں کو ایک مرکز کے نیچے لانا مشکل ھوگا اس طرح کی فورس کا تجربہFSFکی شکل میں اس ملک بھٹو کے میں ھوچگا ھے جو بری طرح ناکام ھوا تھا ھم امید رکھتے ھیں کہ حکومت مجوزہ فورس کو اپنی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کریگی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024