غیرت کے نام پر قتل۔ پاکستانی کو امریکا میں عمر قید کی سزا
نیویارک: ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور کی بیٹی اس وقت اپنے آنسوؤں کو ضبط نہ کرسکی جب وہ نیویارک کی ایک عدالت میں اپنے والد کے خلاف گواہی دینے کے لیے پہنچی تھی۔
ان کے والد پر الزام تھا کہ انہوں نے اس کے بوائے فرینڈ کے رشتہ داروں کو پاکستان میں قتل کیا تھا۔
اس مقدمے کی مدعی تیئس برس کی امینہ اجمل، محمد اجمل چوہدری کی بیٹی ہیں، جو اپنے والد کے خلاف گواہی دینے کے لیے آئی تھیں۔
اگر محمد اجمل کو عزت کے نام پر قتل کا مجرم قرار دے دیا گیا تو انہیں عمرقید کی سزا ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں 2012ء کے دوران امینہ کی ارینج میرج میں شرکت کے بعد اجمل چوہدری اپنی بیٹی کو اس وقت پہلی بار دیکھا تھا، وہ بھی اس لمحے رو دیے ۔
اس شادی کے فوراً بعد وہ اپنے محبوب شجاعت عباس اور امریکی محکمہ خارجہ کی مدد سے ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوگئیں۔
اس بات پر ذلت محسوس کرتے ہوئے اجمل چوہدری نے مبینہ طور پر شجاعت عباس کے والد اور ان کی بہن کو قتل کروادیا۔
جب امریکی اسسٹنٹ اٹارنی ایمنڈا ہیکٹر نے ان سے کہا کہ کیا وہ جیوری کے لیے عدالت میں اپنے والد کی شناخت کرسکتی ہیں، تو امینہ دوبارہ صدمے سے نڈھال ہوگئیں۔
امینہ نے روتے ہوئے کہا ’’جی ہاں، وہ یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘
انہوں نے جیوری کو بتایا کہ وہ نو سال کی عمر میں بروکلین آئی تھیں، پبلک اسکول میں ان کا داخلہ ہوا، اس کے بعد بشپ کیرنے ہائی اسکول میں پھر انہوں نے بروکلین کالج سے تعلیم حاصل کی۔
ان کے والد نے اپنے گاؤں چڑیاوالہ میں ایک نوجوان سے ان کی شادی کے لیے وعدہ کر رکھا تھا، لیکن امینہ کو پاکستا ن میں اپنی بہن کی شادی کے دوران شجاعت کے ساتھ محبت ہوگئی تھی۔
وہ اور شجاعت خفیہ طور پر فیس بک اور ای میلز کے ذریعے رابطے میں رہے۔ جب 2009ء میں ان کے والد اور چچا کو اس تعلق کے پھلنے پھولنے کا علم ہو تو انہیں امریکا واپس جانے سے روک دیا گیا۔
امینہ نے بتایا کہ ’’میرے والد نے مجھ سے کہا کہ میں بہت زیادہ امریکی ہو گئی ہوں، مجھے اپنی ثقافت سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اجمل چوہدری کو جب امینہ کے پاس سے ایک موبائل فون ملا تو وہ بہت ناراض ہوئے تھے، اس فون کے ذریعے امینہ شجاعت کے ساتھ بات کیا کرتی تھیں۔
امینہ نے گواہی دی ’’میرے والد نے مجھ سے کہا کہ میں اب تمہارے بارے میں مزید کوئی شکایت سننا نہیں چاہتا۔ اگر تم نے کچھ غلط کیا تو میں تمہیں قتل کردوں گا۔‘‘