• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ٹی ٹی پی سے منسلک دہشت گرد دیامیر میں روپوش

شائع July 12, 2014
گلگت کی ایک مرکزی شاہراہ پر پولیس کے اہلکار الرٹ کھڑے ہیں۔ —. فائل فوٹو
گلگت کی ایک مرکزی شاہراہ پر پولیس کے اہلکار الرٹ کھڑے ہیں۔ —. فائل فوٹو

گلگت: کل یہاں گلگت بلتستان کے انسپکٹر جنرل پولیس محمد سلیم بھٹی نے اپنے آفس میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے منسلک دہشت گردوں کے ایک گروپ کی ضلع دیامیر میں موجودگی کی اطلاع ملی تھی، چنانچہ ان کی گرفتاری کے لیے ایک سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس گروپ کے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ٹی ٹی پی کے ساتھ روابط قائم ہیں۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ اس گروپ کے دو اراکین نے شمالی وزیرستان ایجنسی میں پناہ لے رکھی تھی۔

محمد سلیم بھٹی نے کہا کہ گلگت بلتستان اسکاؤٹس، پاک فوج اور پولیس کا مشترکہ سرچ آپریشن دیامیر میں جاری ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دو اہم دہشت گردوں کو گرفتار کیا تھا، جو پچھلے سال نانگا پربت پر نو غیرملکیوں کے قتل، شاہراہِ قراقرم پر شیعہ مسافروں کے قتلِ عام اور ڈوڈیشل پولیس اسٹیشن پر حملے میں ملؤث تھے۔

پولیس چیف نے اعلان کیا کہ اس علاقے میں پولیس اہلکاروں کی قلت پر قابو پانے کے لیے پولیس کی پندرہ سو ملازمتیں نکالی جائیں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس علاقے میں ایک خصوصی پولیس ٹریننگ اسکول بھی قائم کیا جائے گا۔

شاہراہِ قراقرم کی تعمیرنو

عطاآباد جھیل کے نزدیک حسینی کے مقام پر شاہراہ قراقرم کے ایک کلومیٹر کے حصے کی تعمیر نو کا کام تین ماہ گزرنے کے باوجود شروع نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہ حصہ ایک گلیشئر کے ٹوٹنے سے تباہ ہوگیا تھا۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کے غیرسنجیدہ رویے پر پاک چین سرحد پر مقم مقامی باشندوں اور کاروباری طبقے نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایک طالبعلم معید واکاہانی نے ڈان کو بتایا کہ اپریل میں اس علاقے میں گلیشئر کے ٹوٹنے سے سیلاب آگیا تھا، جس کی وجہ سے وادیٔ گجل اور اپر ہنزہ کی پچیس ہزار کی آبادی ملک کے باقی حصے سے کٹ کر رہ گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ لوگوں نے بلڈوزروں اور بھاری مشنری پر سیلاب زدہ علاقے کو پار کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں غذائی اشیاء اور دواؤں کی قلت ہوگئی تھی۔

ایک سماجی کارکن محبوب ربانی نے ڈان کو بتایا کہ اس واقعے کو تین مہینے گزرجانے کے باوجود کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے نے لوگوں کی سہولت کے لیے کسی متبادل رستے کا انتظام نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حسینی گلیشئر اس وقت بھی پگھل رہا ہے جس کی وجہ سے اس وقت بھاری سیلاب کی صورتحال ہے۔

شاہراہِ قراقرم پاکستان اور چین کے درمیان زمینی رابطے کے لیے ایک واحد ذریعہ ہے، لیکن اس کا ایک حصہ سیلاب کی نذر ہوجانے کی وجہ سے کچھ تاجروں نے اپنا کاروبار بند کردیا ہے، نتیجے میں ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔

پسو گجل کے ایک طالبعلم کمال الدین کا کہنا ہے کہ ’’ہم حسینی کے مقام پر شاہراہِ قراقرم کے بند ہونے کی وجہ سے ملک کے باقی حصے سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ کشتی کے ذریعے عطا آباد جھیل پار کرنا ہمیشہ خطرناک ہے، جیسا کہ حال ہی میں ایک کشتی الٹنے سے دو افراد ڈوب گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024