آرمی چیف کا دورۂ امریکا، ڈرون حملوں پر تبادلۂ خیال کا امکان
واشنگٹن: امریکی اخبار یوایس آرمی ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے امریکا کے وزٹ کے دوران اس بات کا امکان ہے کہ امریکی حکام کے ساتھ مستقبل میں ڈرون حملوں پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔
دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان مستقبل کے تعلقات پر مذاکرات کے لیے جنرل راحیل شریف 16 نومبر کو ایک ہفتہ طویل دورے پر امریکا پہنچ رہے ہیں۔
یو ایس آرمی ٹائمز نے ایک مضمون میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ یہ اکتوبر 2010ء کے بعد سے پاکستانی فوج کے سربراہ کا یہ پہلا امریکی دورہ ہوگا، اس وقت دونوں افواج کے مابین تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔
اس کے علاوہ آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف کا یہ امریکا کا پہلا دورہ ہوگا۔
واشنگٹن میں کونسل برائے خارجہ تعلقات کے ڈینائل مارکے نے اس اخبار کو بتایا کہ اس بات کا امکان ہے کہ جنرل راحیل شریف کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کی جائے گی کہ آیا اس سال افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان میں ٹارگٹ حملوں کی امریکی مہم میں ڈرون کا استعمال کیاجانا چاہیے۔
اس اخبار نے یاد دلایا ہے کہ امریکا اس وقت بھی پاکستانی طالبان کو نشانہ بنارہا ہے، جو دونوں ملکوں کے مشترکہ دشمن ہیں۔
امریکی فوج کے اخبار نے سوال اُٹھایا ہے کہ ’’سوال یہ ہے کہ اگر امریکا حقانی نیٹ ورک جیسے گروہوں پر حملہ کرتا ہے تو اس صورت میں پاکستان کا ردّعمل کیا ہوگا۔‘‘
ڈینائل مارکے کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل شریف پاکستان کے ہندوستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات پر بھی بات کرنا پسند کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف واشنگٹن کو شاید اس طرح قائل کرنا چاہیں گے کہ ہندوستانیوں کو پرسکون رکھنا ہمارے مفاد میں ہے۔
ڈینائل نے کہا ’’مجھے یقین نہیں کہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہیں گے۔‘‘
امریکی سیکریٹری دفاع چک ہیگل، جنرل مارٹن ڈیمپسی، چیئرمین آف جوائنٹ چیفس جنرل لائیڈ آسٹن، امریکا کی مرکزی کمانڈ کے سربراہ اور اوباما انتظامیہ کے دیگر اہم حکام کے ساتھ جنرل راحیل شریف کی ملاقات متوقع ہے۔
واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے جنوبی ایشیا کے مرکز کے ڈائریکٹر شجاع نواز کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کی کوشش ہوگی کہ دونوں ملکوں کی افواج کے مابین قریبی تعلقات کی تعمیرنو کی جائے۔
شجاع نواز نے پاکستانی فوج پر ایک کتاب تحریر کرچکے ہیں، جسے بہت زیادہ پذیرائی ملی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ جنرل راحیل شریف کا ذہن 2016ء کے بعد پاکستان کے تعلقات کے مستقبل پر مرکوز ہوگا۔
واضح رہے کہ 2016ء میں امریکا تقریباً اپنے تمام فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلوالے گا۔
امریکی فوج کے اخبار نے اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ امریکا کی جانب سے افغان سرحد کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے پاکستانی فوج کی تلافی کردی گئی تھی۔
دراصل پاکستان نے افغانستان میں 2001ء میں امریکی مداخلت کے بعد سے فاٹا میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں اپنے فوجی تعینات کررکھے ہیں۔
جب شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا آغاز ہوا تو اس سال کی ابتداء میں پاکستان نے اپنے فوجیوں کی تعداد کو بڑھا کر ایک لاکھ ستّر ہزار تک کردیا تھا۔
شجاع نواز کہتے ہیں ’’افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے ساتھ کولیشن سپورٹ فنڈز بھی ختم ہوجائے گا، لہٰذا اس بات کی ضرورت پڑے گی کہ کسی بھی قسم کی امداد کی فراہمی کے لیے ایک نیا نظام وضع کیا جائے۔‘‘
ایک امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے جیسن کیمپبل کہتے ہیں نے آرمی ٹائمز کو بتایا کہ ماضی میں پاکستانی فوج کے رہنماؤں کے برعکس جنرل راحیل شریف خیال کرتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے اندرونی خطرات بیرونی سے کہیں زیادہ دہشت انگیز ہیں۔