ڈاکیارڈ حملہ: مجرمان کے اہلِخانہ کو نیول چیف سے رجوع کرنے کی ہدایت
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کراچی میں قائم نیوی ڈاکیارڈ حملے میں ملوث مجرمان کے اہلِ خانہ کو ہدایت کی ہے کہ کسی قسم کا بھی ریلیف حاصل کرنے کے لیے نیول چیف کے پاس درخواست دیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے نیوی کے حکام کو بھی ہدایت کی کہ وکیل صفائی کو ٹرائل کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔
دورانِ سماعت اسسٹنٹ اٹارنی جنرل فرخ دل نے نشاندہی کی کہ کیس ریکارڈ کی نوعیت حساس ہے اور اس کی تفصیلات فراہم کرنا قومی مفاد کے خلاف ہوسکتا ہے۔
جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ’یہ سزائے موت کا کیس ہے جس میں مجرم کو پھانسی دی جائے گی لہٰذا انہیں متعلقہ ریکارڈ دیکھنے کا حق حاصل ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکیارڈ حملہ: 5 نیوی افسران کو سزائے موت
بینچ نے حکم دیا کہ اگر ریکارڈ حساس نوعیت کا ہو تو وکیل صفائی کو ہدایت کی جاسکتی ہے کہ یہ تفصیلات میڈیا یا کسی اور شخص کو فراہم نہ کی جائیں۔
اس سے قبل فرخ دل نے درخواست کی حیثیت کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا تھا کہ پاکستان نیوی آرڈیننس 1961 کے تحت کورٹ مارشل میں سزا ہونے اور نیول اپیل کورٹ کی جانب سے اسے برقرار رکھنے کی صورت میں نیول چیف کے سامنے درخواست کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سیکشن 135 کے تحت نیول چیف کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ سزا کو ختم یا کم کردیں یا مقدمے کی پوری سماعت کو کالعدم قرار دے دیں۔
مزید پڑھیں: ڈاکیارڈ حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کر لی
جس پر عدالت نے وکیل صفائی کرنل (ر) انعام الرحمٰن اور میجر (ر) وحید اور مجرمان کے اہلِ خانہ کو نیول چیف سے رجوع کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ اگر ان کے تحفظات نہ دور ہوئے تو اہلِخانہ دوبارہ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں۔
نیوی ڈاکیارڈ حملہ
خیال رہے کہ 6 ستمبر 2014 کو کراچی کے ساحل پر قائم نیوی ڈاک یارڈ پر ہونے والے حملے میں ایک نیوی افسر شہید اور دو حملہ آور ہلاک ہوئے تھے۔
جس پر 24 مئی 2016 کو نیوی ٹربیونل نے مقدمے کی سماعت کے بعد حملے میں ملوث پاک بحریہ کے 5 افسران کو سزائے موت سنائی تھی۔
پانچوں نیول افسران کو دہشت گرد تنظیم داعش سے تعلق ثابت ہونے، بغاوت کرنے، سازش تیار کرنے اور ڈاک یارڈ میں ہتھیار لے جانے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی ڈاکیارڈ حملہ،افغانستان فرار ہونےوالے 3نیول افسران گرفتار
میڈیا رپورٹس کے مطابق حملہ آور، پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس ذوالفقار کو ہائی جیک کرکے امریکی بحری جہاز کو نشانہ بنانا چاہتے تھے، جسے سیکیورٹی فورسز نے ناکام بناتے ہوئے دو حملہ آوروں کو ہلاک جبکہ چار کو گرفتار کرلیا تھا۔
تاہم وکیل صفائی کے مطابق مجرمان نے دعویٰ کیا تھا کہ کو نیوی ٹریبونل میں سماعت کے دوران انہیں وکیل دفاع فراہم نہیں کیا تھا اور مجرمان میں سے ایک کے والد نے نیوی حکام سے وکیل دفاع فراہم کرنے کی تحریری درخواست کی تھی جس کے جواب میں انہوں نے یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ یہ معاملہ سماعت کے دوران اٹھایا جائے گا۔
اس حوالے سے اٹارنی جنرل فرخ دل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ کمانڈر سمیت سینئر نیول افسر کو اس کیس میں وکیل دفاع مقرر کیا گیا تھا۔