نقطہ نظر ریاست ابوظبی: جسے دنیا ابھی ٹھیک سے جانتی ہی نہیں جب 15 سال پہلے ہم پاکستان سے ابوظبی کے لیے نکلے تھے تو ہمارے بھی دل میں بہت قلق تھا کہ دبئی کیوں نہیں جارہے۔
نقطہ نظر کیا فیصل مسجد صرف مردوں کے لیے مختص ہے؟ کیاعورتیں یہاں اچھوت ہیں؟ کیا اسی رب نے یہ عورت نہیں بنائی؟ یا اس نے عورت کو مسجد میں داخلے کا حق نہیں دیا؟ کیا یہ مسجد عورتوں کے لیے نہیں ہے؟
نقطہ نظر سرکاری سطح پر جشنِ آزادی کی بڑی عوامی تقریبات کیوں نہیں ہوتیں؟ ہزار ہزار پردوں میں ہونے والی پرچم کشائیاں اور پریڈ سے عام عوام کو کیا ملا ہے؟ ایک نظارہ تک نہیں!
نقطہ نظر انشورنس کارڈ اور ابوظہبی کا صحت کا نظام معمولی فیس دے کر علاج اور دوا مل جاتی ہے، اتنی سہولتیں اور آسانیاں بھی کبھی زندگی میں ہوسکتی ہیں یہ ہم پاکستانیوں کو کہاں پتا تھا۔
نقطہ نظر 'یہ پنکھا جب تک گھومے گا تب تک سکون اور تخلیق کی کوئی اہمیت نہیں' کیا انسان گرمی میں صرف پنکھے کے شور پر اکتفا کرسکتا ہے؟ کیا کبھی غور کیا ہے کہ یہ شور کس قدر زحمت اور بھرپور صوتی آلودگی ہے؟
نقطہ نظر اس عید پر زندگی کو بچپن کی سرخ عینک لگا کر دیکھیں آج کی تیز طرار معلومات سے لبریز زندگی میں جتنا تعلقات اور دوستیوں نے نقصان اٹھایا ہے اتنا ہی بڑا ظلم عید کے تہواروں پر بھی ہوا ہے۔
نقطہ نظر ہمارے بچے بگڑ کیوں گئے؟ ہم والدین نہیں خود بچے بن بیٹھے اور انہیں وہ سب دینے لگے جو انہوں نے طلب کی یوں ہم انہیں چیزیں دینے میں بسر ہوگئے سبق نہ دے سکے۔
نقطہ نظر پتریاٹہ: جہاں فطری حُسن میلا ہو رہا ہے! اگر وزیرِاعظم صاحب صرف ایسے مقامات کی صفائی کے لیے ہی نیا عملہ بھرتی کرنا شروع کرلیتے تو سیکڑوں نوکریاں تو ضرور نکل آتیں۔
نقطہ نظر ماں اور کوالٹی ٹائم کی مسٹری بچوں کے ساتھ بیٹھ کر میں اکثر کھیل نہیں سکی، ان سے میں آج تک دوستی نہ کرسکی۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر آج تک کارٹون نہ دیکھ سکی۔ کیوں؟
نقطہ نظر دیس سے پردیس: میں رشتے، محبت چھوڑ کر صرف درد دبئی لے جاسکی (آخری قسط) مجھے کیا خبر تھی کہ جس سفر کا آغاز آنسو بہانے سے ہوا تھا اس کا انجام بھی آنسوؤں پر ہی ہوگا۔ مگر میرے صبر کی انتہا ہوچکی تھی۔
نقطہ نظر دیس سے پردیس: دیسی صارفین کا المیہ اور ڈینگی کا ڈنک (چھٹی قسط) جب تک خود پیسےدینے والے کو اپنے پیسے کی قدر کا احساس نہ ہو ہم اس کی خاطر پاکستان میں لڑ کر خود کو رسوا ہونے کا رسک نہیں لےسکتے تھے
نقطہ نظر عربوں کے دیس میں دیسیوں کی عید پرانی عیدیں یاد کرتے رہیں گے تو ڈپریشن کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ تھوڑی ہمت سے آپ پردیس میں بھی عید کی دیسی روایات زندہ رکھ سکتے ہیں
نقطہ نظر پردیس سے دیس: خاندانی دباؤ اور اکیلی عورت (پانچویں قسط) ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ جو پاکستان سے چلے جاتے ہیں وہ واپس نہیں آتے۔ کبھی کوئی یہ سوال نہیں پوچھتا کہ آخر کیوں نہیں آتے؟
نقطہ نظر پردیس سے دیس: گھریلو ملازماؤں کی تلاش اور بچوں کی تعلیم کی ٹینشن (چوتھی قسط) بہرحال جلد ہی ہمیں اپنی غربت اور اوقات کا یقین ہوگیا اور ٹیوشن کا خیال دماغ سے نکال کر میں نے خود ہی بیٹے کو پڑھانا شروع کیا۔
نقطہ نظر پردیس سے دیس: کیا مالک مکان ایسے بھی ہوتے ہیں؟ (تیسری قسط) میاں صاحب ابوظہبی جاچکے تھےاور دوسرے روز ان کی غیرموجودگی میں مالک مکان کے بھائی ٹونٹیاں چیک کروانے آئے تو صوفےپر پھیل کر بیٹھ گئے
نقطہ نظر پردیس سے دیس: کرائے کا پہلا گھر (دوسری قسط) خستہ حال گھروں کا کرایہ بھی 60، 70 ہزار روپے۔ پھر مالکان کا اس قدر خشونت زدہ رویہ جیسےوہ گھر کرائےپر نہیں بلکہ خیرات میں دے رہےہوں
نقطہ نظر پردیس سے دیس: آنسوؤں میں بھیگا سفر (پہلی قسط) پرواز سے پہلے میاں سےکئی بار جھگڑی کہ ایسا مشکل فیصلہ انہوں نےکیوں کیا؟ اگرچہ اس کی تاویلیں دینےمیں، مَیں ہی ہمیشہ پیش پیش رہی تھی
نقطہ نظر اس زندگی میں زندگی کے سوا سب کچھ ہے! 21ویں صدی سے پہلے سنتے تھے کہ 21ویں صدی بہت ہی حیران کن ہوگی مگر اس قدر ہوگی یہ خود ہمیں بھی اندازہ نہ تھا۔
نقطہ نظر ’عورتوں کو ’عزت‘ راس نہ آئے تو یہی انجام ہوتا ہے‘ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اس کے بھی دل کو کوئی بھاگیا۔ ہزار مردوں سے چھپاتے رہو عزت پر نظر ڈالنے والا پردے کی اوڑھ سے نکل ہی آتا ہے۔
نقطہ نظر افسانہ: اختتام آج وہ ان کے سامنے بیٹھی بول سکتی تھی، منہ مروڑ سکتی تھی، سر اٹھا کر اور آواز بڑھا کر چلا سکتی تھی مگر وہ خموش تھی۔