نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کے لیے منتخب ٹیم من وعن وہی ہے جس نے چیمپیئنز ٹرافی میں قومی پرچم سرنگوں کیا تھا بس ٹیم سے کراچی کی نمائندگی ختم کردی گئی ہے۔
پاکستان کا مسئلہ کارکردگی میں غیر مستقل مزاجی ہے جبکہ زمبابوے اور نیپال جیسی ٹیموں کے خلاف جیت پر جشن منانے کی روایت نے ٹیم کو سہل پسند اور سخت جنگ سے معذور بنادیا ہے۔
1987ء میں بھارت کی جانب سے 126 کے آسان ہدف کے تعاقب میں پوری ٹیم 87 رنز پر آؤٹ ہوگئی، اس شکست کے بعد عمران خان نے ہفتوں کسی سے بات نہیں کی حالانکہ وہ خود صفر پر آؤٹ ہوئے تھے۔
ورلڈکپ میں پاکستان کا سفر تو ختم ہوچکا لیکن ابھی کرکٹ ختم نہیں ہوئی، پاکستان کرکٹ میں اب سخت احتساب کی ضرورت ہے اور کپتان سمیت کوچنگ اسٹاف کو فارغ کرنا بے حد ضروری ہے۔
سب کچھ پاکستان کے حق میں جارہا تھا، جیت کی ضو پھوٹ رہی تھی، جشن کا سماں تیار تھا اور خوشی پھوٹنے ہی والی تھی لیکن بابر بھول گئے تھے کہ پے درپے شکستوں کا بوجھ جیتی ہوئی بازی بھی ہروا دیتا ہے
پاکستان ٹیم کی روایات بھی دلچسپ ہیں، وہ اپنی خراب باؤلنگ سے مخالف ٹیم کے آؤٹ آف فارم بلے بازوں کو فارم میں لے آتے ہیں اور بزدلانہ بیٹنگ سے دوسرے درجے کے لیگ اسپنرز کو ہیرو بنادیتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان نے فخر زمان کو بینچ پر بٹھا کر اور عبداللہ کو موقع دے کر اپنی دیرینہ پریشانی سے کسی حد تک نجات حاصل کرلی ہے لیکن احمدآباد میں یہ میچ پاکستان کے لیے اعصاب کی جنگ ہوگا۔
ورلڈکپ 2023ء میں کون سے ایسے سورما ہیں جو جیت کے معمار بھی ہوں گے اور دنیا بھر کی نظروں کے مرکز بھی، ورلڈکپ کے 11 خطرناک کھلاڑیوں کا تجزیہ اور درجہ بندی اس تحریر میں پیش کی جارہی ہے۔
مقابلہ تو پاکستان نے خوب کیا لیکن سری لنکا خوش قسمت رہی کہ اسے قسمت کی یاوری سے آخری اوور میں ایسی جگہ چار رنز مل گئے جہاں بلے باز کی محنت سے زیادہ باؤلر کی بدقسمتی ہوتی ہے۔