ایک دشمن کا سوگ کیوں؟
ایک ایسا شخص جس نے ریاست پاکستان کے ساتھ جنگ کا اعلان کیا، ہزاروں معصوم مرد و عورت اور بچوں کا قتل عام کیا، اس کی موت پر اختلافات میں بٹی اس قوم کو بہت سکھ محسوس ہونا چاہیے تھا-
اس کی بجاۓ، ہمارے سیاستدان امریکی ڈرون کے حملے میں حکیم اللہ محسود کی موت پر سوگ منا رہے ہیں بقول ان کے یہ واقعہ ‘امن مذاکرات’ پر حملہ ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے چیف کو اس کی شرمناک موت کے بعد، عوام کے اول نمبر دشمن سے بدل کر ایک ہیرو کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
ایک قاتل جس نے ہمارے فوجیوں کے سر قلم کرنے کا حکم دیا، جس نے چند ماہ پیشتر ایک پاکستان جنرل کے قتل کی ذمہ داری قبول کی، اسے اب شہید کا رتبہ دے دیا گیا ہے-
بجاۓ اس کے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جاتا اور دہشتگردوں کے نیٹ ورک کو اکھاڑ پھینکا جاتا، ایک خوف زدہ سیاسی قیادت، جارحیت پسندوں کے آگے بے شرمی کے ساتھ سجدہ ریز ہو گئی-
نتیجہ یہ کہ پاکستانی عوام کے خلاف جرائم کے باوجود، انتہا پسندوں اور ان کے حامیوں کا عوام کی سوچ پر غلبہ ہو گیا ہے- یہ ایک ایسے ملک کے لئے انتہائی خطرناک صورت حال ہے جسے بڑھتی ہوئی تشدد آمیز انتہا پسندی کا سامنا ہے- ایک تنگ نظر مطلب پرست قیادت ملک کو خود کشی کے دہانے پر لے جا رہی ہے-
تھوڑی رد و بدل کے ساتھ تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی راگ الاپ رہی ہیں کہ حکیم اللہ پر جان لیوا ڈرون حملہ در اصل خیالی امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سازش تھی-
ایک طرف وزیر داخلہ نے پاک-امریکی تعلقات پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا تو دوسری طرف بھناۓ ہوۓ عمران خان نے نیٹو سپلائی بند کرنے کی دھمکی دے ڈالی-
یہ دھمکیاں ممکن ہے عوام کو دکھانے کے لئے ہوں، لیکن اس قسم کے غیر زمہ دارانہ بیانات لغو نتائج کی طرف لے جا سکتے ہیں، اور ملک مزید مشکلات میں گھرتا چلا جاۓ گا-
بڑے افسوس کی بات ہے، کہ عظیم خان صاحب کو پشاور کے ایک پر ہجوم بازار میں خودکش بم دھماکے میں مرنے والی جوان عورتوں اور بچوں یا گرجا گھر میں بم دھماکے سے ہلاک ہونے والے عیسائیوں کے لئے اتنا رنج محسوس نہیں ہوا جتنا ان مکروہ کاروائیوں کی ذمہ دار عسکریت پسند تنظیم کے لیڈر کی موت پر ہوا ہے- حد یہ کہ وہ طالبان کی طرف سے ان دھماکوں کی توثیق کے باوجود یہ ماننے سے انکاری ہیں-
بظاہر، یہ سارا ہنگامہ امریکی کاروائی کی ٹائمنگ اور ایک بار پھر پاکستانی خود مختاری کی خلاف ورزی کے بارے میں ہے- وزیر داخلہ کے مطابق، تین رکنی وفد کی تحریک طالبان کی قیادت سے ملاقات کے چند گھنٹے پیشتر کیا گیا، اس ملاقات میں وفد ٹی ٹی پی کی قیادت کو حکومت کی طرف سے مذاکرات کی رسمی پیشکش کرنے والا تھا-
پاکستانی سرزمین پر امریکہ کے ڈرون حملوں کے قانونی جواز پر اعتراض کے باوجود، یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ٹی ٹی پی چیف کو ہمارے سیاسیتدانوں کی طرف سے مبینہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے نشانہ بنایا گیا-
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ٹی ٹی پی چیف، امریکی ہٹ لسٹ پر تھا اور اس کے سر پر پانچ ملین ڈالر کر انعام تھا- وہ اس وقت امریکی ریڈار کی زد میں آیا جب اسے ایک ویڈیو میں القائدہ سے وابستہ ایک اردنی ڈاکٹر، حمام خلیل ابو ملال البلاوی، کے ساتھ بات چیت کرتے دیکھا گیا، اس ڈاکٹر نے سنہ دو ہزار نو میں، افغانستانی صوبہ خوست میں موجود سی آئی اے آپریٹو بیس کے اندر خود کو بم سے اڑا لیا تھا، اس دھماکے میں سات انٹیلی جنس آپریٹو مارے گۓ تھے- اس واقعہ نے اس کی القاعدہ سے قریبی وابستگی کی بھی توثیق کر دی-
واقعہ کے فوراً بعد ہی، حکیم اللہ نے، نیویارک ٹائمز اسکوائر پر ناکام کار بم دھماکے میں ملوث پاکستانی نژاد امریکی فیصل شہزاد کی تربیت کا دعویٰ کیا-
پچھلے تین سالوں میں حکیم اللہ کئی ڈرون حملوں میں بال بال بچتا رہا- انہی میں سے ایک میں وہ زخمی ہوا اور کئی مہینوں تک منظر عام سے غائب رہا-
یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ جمعہ کے دن ہونے والے جان لیوا حملے سے چند ہفتے پیشتر ہی امریکی فورسز، افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں سے تحریک طالبان کے قریبی ساتھی لطیف محسود کو چھڑا کر لے گۓ تھے-
یہ بہت ممکن ہے کہ لطیف سے حاصل ہونے والے معلومات کی بنا پر سی آئی اے کو حکیم اللہ کی پناہ گاہ کا سراغ ملا ہو- وزیر داخلہ نے اس بات کی توثیق کی ہے کہ امریکی افسران نے انہیں مطلع کر دیا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی لیڈر کا سراغ مل گیا تو اسے کسی صورت نہیں بخشا جاۓ گا-
یہ بات یقینی ہے کہ ڈرون مہم، واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان شورش زدہ تعلقات میں سب سے بڑا کانٹا ہے- واشنگٹن میں صدر بارک اوباما سے ملاقات کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے بھی یہ نکتہ اٹھایا تھا- بے شک، ملک کی خودمختاری کی خلاف ورزی پر پاکستان کا اعتراض مکمل طور پر قانونی اور اخلاقی بنیاد پر جائز ہے- ڈرون حملوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے منفی سیاسی اثرات پر سبھی متفق ہیں-
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈرون نے شمالی وزیرستان میں سرگرم بہت سے اہم پاکستانی جارحیت پسندوں کا بھی خاتمہ کیا ہے- پچھلے دو سالوں میں ڈرون کا شکار ہونے والے جارحیت پسندوں میں ٹی ٹی پی کا ڈپٹی چیف ولی الرحمٰن، الیاس کشمیری، قاری حسین، قاری ظفر اور بدر منصور شامل ہیں- یہ تمام لوگ پاکستان کی سیکورٹی انسٹالیشنز پر حملوں کے ماسٹر مائنڈ تھے-
پاکستان نے بھی تازہ ترین ڈرون حملے میں حکیم اللہ کی ہلاکت پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے- یہ قدم پاکستان کی تضحیک کا باعث بنے گا اور ڈرون کے معاملے میں اس کی پوزیشن مزید کمزور ہوگی-
دوسرے ممالک کو چھوڑیں، اسلام آباد تو اپنے سب سے قریبی حمایتی چین تک کو اس معاملے پر قائل نہیں کر سکتا- شمالی وزیرستان میں انتہا پسندوں کی پناہ گاہیں بین الاقوامی کمیونٹی کے لئے تشویش کا باعث ہیں- یہ بات یقینی ہے کہ جس طرح پاکستان دہشتگردی کے مسئلہ سے نمٹ رہا ہے، کوئی اسے قبول نہیں کرے گا-
شروعات سے ہی یہ سوال موجود ہے کہ آیا ٹی ٹی پی کے ہٹھیلے رویے کی موجودگی میں پاکستانی امن مذاکرات کی کوششیں کامیاب ہونگی؟ بی بی سی کو اپنے آخری انٹرویو میں حکیم اللہ محسود نے پاکستانی آئین کے تحت کسی قسم کے مذاکرات کو مسترد کر دیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ یہ سیکولر جمہوری نظام کا آئینہ دار ہے-
اب ان کی موت کے بعد، جو ممکن ہے ٹی ٹی پی کو مزید دھڑ بندیوں کی طرف لے جاۓ، کسی با مقصد مذاکرات کے امکانات مزید معدوم ہو گۓ ہیں- لیکن خطرہ اس بات کا ہے کہ ہماری پالیسی کی موجودہ بگڑی ہوئی حالت ممکن ہے جارحیت پسندوں کو سازگار ماحول فراہم کرنے میں معاون ہو اور وہ اپنی سرگرمیوں میں پھر سے مشغول ہو جائیں-
یہ، شاید بڑھتی ہوئی عسکریت پسندوں کے خطرے کے خلاف ملک کی جدوجہد میں سب سے اہم نقطہ ہے.
ترجمہ: ناہید اسرار