• KHI: Zuhr 12:34pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:05pm Asr 4:37pm
  • ISB: Zuhr 12:10pm Asr 4:43pm
  • KHI: Zuhr 12:34pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:05pm Asr 4:37pm
  • ISB: Zuhr 12:10pm Asr 4:43pm

دائیں، بائیں اور اباؤٹ ٹرن

شائع November 25, 2013
امیر تحریک طالبان پاکستان فضل اللہ
امیر تحریک طالبان پاکستان فضل اللہ

حال ہی میں جب ایک مقامی نیوز چینل نے یہ دعویٰ کیا کہ کٹر اور تشدد پسند طالبانی لیڈر، فضل اللہ، کسی زمانے میں بائیں بازو کی لبرل، پی پی پی، کے سٹوڈنٹ ونگ کے ممبر تھے تو پاکستانی سوشل میڈیا پر کچھ چہ مگوئیاں ہوئیں-

سوشل میڈیا پر بہت سوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا- میرے خیال سے بہت کم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی کی سیاسی سوچ کا دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں منتقل ہو جانا کوئی انوکھی بات نہیں-

مغرب میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں لبرل/لیفٹسٹ نظریات کے حامل افراد، دائیں بازو کے مقاصد اور تنظیموں کے معروف وکیل اور حامی بن گۓ (اور اس کے برعکس)-

لیکن ہم صرف ان مثالوں پر بحث کریں گے جن کا تعلق پاکستان سے تھا، فضل اللہ کوئی پہلا شخص نہیں ہے- ایک مدرسہ کا سابقہ طالب علم، نوجوانی میں جس کا تھوڑا تعلق غیر مذہبی تعلیمی اداروں سے بھی رہا، فضل اللہ درحقیقت ایک قدامت پسند گھرانے میں پیدا ہوا تھا-

ایک کٹر مذہبی لیڈر (کالعدم تحریک نفاز شریعت محمدی کے صوفی محمد) کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنے سے پہلے، (ٹی وی رپورٹ کے مطابق) وہ پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن کے ممبر تھے-

بیونڈ سوات میں، (Beyond Swat جس کی ایڈیٹنگ مگنس مرسڈن نے کی)، چارلس لنڈہم نے کتاب کے لئے سوات کے بارے میں سنہ انیس سو ستر کے بعد کی اپنی تحقیق پر مبنی پرچے میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سوات کے غریب گھرانوں سے آنے والے نوجوانوں کو شدت پسند بنانے کا پہلا ذریعہ سابقہ وزیر اعظم اور پی پی پی کے چیئرمین، ذولفقار علی بھٹو، کے سوشلسٹ پیغامات تھے-

انہوں نے سنہ انیس سو ستتر کے انتخابات میں پارٹی کو بےتحاشا ووٹ دیے، (جو اس سال کی فوجی بغاوت کے بعد جنرل ضیاء الحق کی آمریت میں کالعدم کر دیے گۓ)-

ان نوجوانوں نے مذہبی جماعتوں اور غیر مذہبی قدامت پرست جماعتوں کے خلاف کافی کام کیا، جن پر ان نوجوانوں کا الزام تھا کہ وہ سوات کے جاگیرداروں سے ملے ہوۓ ہیں-

دلچسپ بات یہ ہے کہ آگے جا کر لنڈہم ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب مذہبی عوامیت پر مبنی سیاست کو عروج حاصل ہوا اور ضیاء دور حکومت میں ابھرنے والے عسکری جہادی گروہوں سے ان کا تعلق بڑھا تو سوات کے نوکر پیشہ اور نچلے طبقے کے نوجوانوں (جنہیں بھٹو کی عوامیت اور بائیں بازو کے بیانات نے اپنی طرف مائل کیا تھا) نے اپنے ناراض بائیں بازو موقف کو یکساں طور پر ناراض اسلامی نکتہ نظر میں تبدیل کرنا شروع کر دیا-

چناچہ ممکن ہے، فضل اللہ کو اپنے بنیاد پرست اظہار کا موقع پہلی بار سنہ انیس سو اسی کی دہائی میں پی ایس ایف میں ملا ہو، لیکن جلد ہی اس نے یہ بھی دیکھا کہ اس دہائی کے اختتام تک، یکساں طبقاتی پس منظر والے افراد کو سنہ انیس سو ستر کی سوات کی عوامی بائیں بازو بنیاد پرستی کی بجاۓ دائیں بازو کی مذہبی عسکریت پسندی اور اصطلاحات اپنانے پر زیادہ پذیرائی مل رہی تھی-

سنہ دو ہزار سات میں ایک ملٹری آپریشن میں ہلاک ہونے والے لال مسجد اسلام آباد کے اکتالیس سالہ مولوی عبدل رشید غازی، سنہ انیس سو اسی، کے زمانے میں قائد اعظم یونیورسٹی میں ایک سیکولر ضیاء مخالف پروگریسو سٹوڈنٹ گروپ سے وابستہ تھے-

وہ عمر بھر ایک بائیں نواز سٹوڈنٹ ایکٹوسٹ اور ایک ماہر تعلیم رہنے کے بعد شدّت پسندی کی طرف مڑ گۓ، وہ تب عسکریت پسند بنے جب ان کے قدامت پرست والد کو مخالف گروہ نے سنہ انیس سو اٹھانوے میں قتل کر دیا-

بنیاد پرست جماعت اسلامی کے موجود چیف، جناب منور حسن بھی مارکسسٹ سٹوڈنٹ تنظیم، نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن (این ایس ایف) کے ایک مستعد رکن تھے-

وہ سنہ انیس سو پچاس کی دہائی میں کراچی میں ایک میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ کی حیثیت سے اس وقت کی مشہور این ایس ایف میں شامل ہوۓ- لیکن جب انیس سو اکسٹھ میں کراچی یونیورسٹی پنہچے تو انہیں جماعت اسلامی کے سٹوڈنٹ ونگ اسلامی جمیعت طلبہ نے این ایس ایف چھوڑنے پر مجبور کر دیا-

حسن نے نا صرف این ایس ایف چھوڑ دی بلکہ آئی جے ٹی کے مستعد ممبر بن گۓ اور آگے جا کر جماعت میں شامل ہو گۓ- قصّہ مختصر یہ کہ، وہ شخص جس نے گزشتہ دنوں ٹی ٹی پی کے سابقہ لیڈر حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا، اپنی نوجوانی میں کارل مارکس کو پڑھتے اور دہرایا کرتے تھے-

مصنف اور صحافی، راجہ انور، جو سنہ انیس سو پچانوے میں مسلم لیگ-ن میں شامل ہوۓ، وہ سنہ انیس سو ساٹھ میں ایک پکّے لیفٹسٹ سٹوڈنٹ ایکٹوسٹ تھے- انیس سو ستر میں انہوں نے ذولفقار علی بھٹو کی پی پی پی گورنمنٹ جوائن کر لی، اور ساتھ ہی وہ سنہ انیس سو اسی- اکاسی میں، مرتضیٰ بھٹو کی خفیہ بائیں بازو شہری گوریلا تنظیم، الذولفقار آرگنائزیشن (اے زیڈ او) کے رکن بھی رہے، بعد میں مرتضیٰ بھٹو سے کسی تنازعہ کے بعد وہ یورپ چلے گۓ-

مسلم لیگ-ن کے ایک اور رکن، پرویز رشید، جو موجودہ حکومت میں وزیر اطلاعات ہیں، سنہ انیس سو ساٹھ میں کٹر بائیں بازو کے سٹوڈنٹ لیڈر تھے- وہ سن انیس سو اسی میں ضیاء آمریت کے خلاف بھی لڑے-

کشمالہ طارق، جو مشرف دور میں مسلم لیگ-ق کی ممتاز رکن رہیں، سنہ انیس سو نوے میں، اپنے طالب علمی کے زمانے میں پی ایس ایف کی سرگرم رکن رہیں-

لیکن اس روایتی نظریاتی تقسیم میں ہمیشہ لوگ بائیں سے دائیں ہی منتقل نہیں ہوتے رہے-

ملک کی سیکولر سیاسی جماعتوں میں سے ایک جماعت، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سربراہ الطاف حسین، کسی زمانے میں بنیاد پرست اسلامی جمیعت طلبہ کے رکن تھے-

ایک یونیورسٹی سٹوڈنٹ کی حیثیت سے انہوں نے اسلامی جمیعت طلبہ کے ارکان کے ساتھ انیس سو ستتر میں ذولفقار علی بھٹو حکومت کے خلاف پھوٹ پڑنے والے احتجاجی مظاہروں میں حصّہ لیا- انیس سو اٹہتر میں وہ آئی جے ٹی سے الگ ہو گۓ اور اس تقسیم کی دوسری جانب چلے گۓ جہاں انہوں نے پہلے سیکولر اے پی ایم ایس او بنائی اور آگے جا کر ایم کیو ایم تشکیل دی-

انیس سو اسی کی دہائی کے اختتام تک اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم نے کراچی کے زیادہ تر کالجوں، یونیورسٹیوں اور شہری سیاست سے آئی جے ٹی کا اثر و رسوخ ختم کر دیا-

مصنف، پروفیسر اور امریکا میں پاکستان کے سابقہ سفیر، حسین حقانی، جو سنہ انیس سو ترانوے سے پی پی پی کی نمایاں لبرل آواز ہیں، سنہ انیس سو اناسی، میں نا صرف آئی جے ٹی کے ممتاز رکن تھے بلکہ وہ آئی جے ٹی کے ٹکٹ پر کراچی یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین کے سربراہ کے طور پر بھی منتخب ہوۓ-

جاوید احمد غامدی، جو آج لبرل اسلامی اسکالرشپ گروپ میں سب سے زیادہ قابل احترام اور باخبر آوازوں میں سے ایک ہیں، انیس سو بہتر میں جماعت کے بانی، قدامت پسند اسلامی اسکالر، ابو الامودودی، سے مخالفت ہونے سے پہلے، جماعت اسلامی کے رکن ہوا کرتے تھے-

بدنام زمانہ بائیں-بازو کے عسکری، سلام اللہ ٹیپو، جو الذولفقار میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے، انہوں اپنے کیریئر کا آغاز کالج کے زمانے میں دائیں بازو کے مذہبی گروپ کے رکن کی حیثیت سے کیا-

تاہم، سنہ انیس سو چوہتر-پچھتر میں ٹیپو این ایس ایف سے وابستہ ہوگۓ- سنہ انیس سو چھہتر میں وہ پی ایس ایف میں شامل ہو گۓ- سنہ انیس سو اسی، میں کابل بھاگنے اور الذولفقار میں شامل ہونے سے پہلے، جسے افغانستان میں سوویت حکومت کی سرپرستی حاصل تھی، ٹیپو کراچی کے پی ایس ایف پریذیڈنٹ بن چکے تھے-

سنہ انیس سو چوراسی میں، الذولفقار کے چیف مرحوم مرتضیٰ بھٹو سے اختلاف ہونے کے بعد انہیں کابل حکومت نے موت کی سزا دے دی-

یہاں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ اس بات پر بحث کی جاۓ کہ لوگ اپنے نظریاتی جھکاؤ دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں کیوں منتقل کر لیتے ہیں- خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کی منتقلی کئی ممالک میں عام سی بات ہے اور ان کی وجوہات ضروری نہیں کہ نظریاتی ہی ہوں-

عملی سیاسی پہلو، ذاتی ارتقاء اور یہاں تک کہ اقتصادی تحفظات بھی اس منتقلی میں اپنا کردار رکھتے ہیں-

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 6 اپریل 2025
کارٹون : 5 اپریل 2025