• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

پاکستان نے تین سینئر افغان طالبان قیدی رہا کر دیے

شائع November 26, 2013
فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان نے افغان امن عمل کے تحت مزید تین سینئر طالبان قیدی رہا کر دیے ہیں۔

پاکستانی وزارت خارجہ اور سیکیورٹی حکام کے مطابق منگل کو رہا کیے جانے والے افراد میں افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کے مشیر ملا عبدالاحد جہانگیر وال، صوبہ ہلمند میں قائم سابق طالبان حکومت کے گورنر ملا عبدالمنان اور سابق فوجی کمانڈر ملا یونس شامل ہیں۔

اس بات کی تصدیق ایک طالبان کے رہنما نے بھی کی ہے

افغان حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان اس سے قبل بھی اکتوبر میں انتہائی خاموشی سے نچلے درجے کے تقریبآ ایک درجن طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے.

ان تمام حکام نے یہ بات نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کی کیونکہ انہیں صحافیوں یا خبر رساں اداروں سے ان معاملات پر گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

ان تین افراد کی رہائی افغان وفد کی آمد کے ایک ہفتے بعد عمل میں آئی ہے جو طالبان سے مذاکرات کے لیے طالبان کے سابق دوسرے اہم ترین رہنما ملا عبدالغنی سے ملاقات کے لیے آیا تھا۔

یاد رہے کہ ملا عبدالغنی برادر کو کئی سال قید کے بعد رواں سال ستمبر میں رہا کر دیا گیا تھا۔

کچھ آفیشلز کو امید ہے کہ برادر طالبان سے مذاکرات میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن دوسری جانب کچھ اہم اعلیی حکام کو اس حوالے سے خدشات ہیں

پاکستان افغان امن عمل کو سازگار اور اس میں مدد کے لیے اب تک ایک سال کے دوران مجموعی طور پر تقریبآ چار درجن افغان قیدی رہا کر چکا ہے

لیکن ابھی تک ان قیدیوں کی رہائی سے اس مذاکراتی عمل کو کسی قسم کا فائدہ پہنچنے کے اثرات نذظر نہیں آئے بلکہ کچھ حکام کا ماننا ہے کہ ان قیدیوں میں سے کچھ ودبارہ افغان حکومت سے جنگ کے لیے میدان میں اتر چکے ہیں

کچھ قیدیوں کو رہا کیے جانے کے سبب پاکستان کے افغانستان اور امریکا سے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے جہاں دونوں ملکوں کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ان سابق قیدیوں کے ٹھکانوں اور سرگرمیوں کی نگرانی نہیں کر رہا

واضح رہے کہ افغان طالبان براہ راست افغان صدر حامد کرزئی، ان کی حکومت یا پھر کسی بھی حکومتی نمائندے کے ساتھ بات چیت سے انکار کرتے رہے ہیں

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کی کوششیں اس وقت ناکام ہو گئی تھیں جب طالبان نے دوحہ میں قائم اپنے دفتر پر اسی نشان اور جھنڈے کا استعمال کیا تھا جو وہ 1996 میں طالبان حکومت کے وقت استعمال کرتے تھے

کرزئی نے مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ حکومت کو یرغمال بنا کر دوبارہ سے اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس شان اور جھنڈے کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا

اس موقع پر طالبان نے بھی ان بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے قطر کے دارالحکومت میں کھولے گئے دفتر کو بند کر دیا تھا

ماضی میں پاکستان اور طالبان کے درمیان تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں جہاں پاکستان نے اس گروپ کو 1996 میں حکومت کے قیام میں مدد فراہم کی تھی اور اسی لیے افغانستان مسلسل پاکستان پر دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے کا الزام عائد کرتا رہا ہے

متعدد تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں ہندوستانی اثر و رسوخ سے بچنے کے لیے طالبان سے تعلقات استوار کر رکھے ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستان کی جانب سے اہم رہنماؤں کو قیدی بنائے جانے کے بعد طالبان کسی حد تک پاکستان کے خلاف بداعتمادی کا شکار ہیں

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024