حکومت ججوں کی تقرری کے شفاف طریق کار پر یقین رکھتی ہے، ظفر الحق
اسلام آباد: سینٹ میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ حکومت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے شفاف طریق کار پر یقین رکھتی ہے۔
پیر کو ایوان بالا میں ارکان کی طرف سے سینیٹر فرحت اللہ بابر کی تحریک پر بحث کے دوران ججوں کی تقرری سے متعلق اظہار خیال کے جواب میں سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ حکومت نے ایک سب کمیٹی تشکیل دی ہے جو بار کونسل‘ وکلاء اور ماہرین سے مشورہ کرکے ججوں کی تقرری کے طریق کار کو شفاف اور ایسا بنائے گی جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔
انہوں نے کہا کہ فاروق نائیک اس کمیٹی کے چیئرمین ہیں‘ اور اب تک اس کے دو اجلاس ہو چکے ہیں، کمیٹی کی رپورٹ آنے پر ایوان کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف یا کسی ادارے کو اس حوالے سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی تمام شرائط مان لی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم اداروں میں کشیدگی‘ لڑائی یا کھینچا تانی نہیں چاہتے‘ ہم چاہتے ہیں جو عہدوں کے اہل ہیں وہ ججز کے عہدوں پر فائز ہوں.
قبل ازیں بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کا معاملہ ابھی تک عدالت میں ہے اور پارلیمنٹ پر یہ تلوار لٹک رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 9 ارکان پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں پاکستان بار کونسل کا نمائندہ‘ اٹارنی جنرل اور وزیر قانون بھی نہیں جارہے اور فی الوقت چھ ججز ہی ججوں کا تقرر کرتے ہیں.
پارلیمانی کمیشن کے آٹھ ارکان جن میں سے چار ارکان اپوزیشن سے اور چار حکومت کی طرف سے رکھے گئے‘ کے اختیارات بھی محدود ہیں کیونکہ ان کو فیصلے کے لئے صرف 14 دن دیئے گئے ہیں۔
کمیشن نے دو ججوں کے نام مسترد کئے لیکن سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن داخل کردی گئی اور کمیشن کا فیصلہ مسترد کردیا گیا، پارلیمانی کمیشن جوڈیشل کیمشن کے فیصلے کو مسترد نہیں کرسکتا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر کریم احمد خواجہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور خودمختاری ہونی چاہیے‘ ایوان میں ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے حوالے سے پوچھے سوالوں کے جوابات فراہم نہیں کئے گئے۔
سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ اس معاملے کو سپریم کورٹ پر ہی چھوڑ دیا جائے یا پھر پارلیمان کو اختیار دیا جائے‘ پارلیمان کے اختیارات اور آئین کو ہمیشہ پامال کیا گیا۔ 18ویں ترمیم اب تک سپریم کورٹ میں فیصلے کے انتظار میں پڑی ہے جبکہ 19ویں ترمیم منظور کرالی گئی، پارلیمنٹ 18/20 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتی ہے،
آرٹیکل چھ کے تحت مشرف کے خلاف کارروائی کے لئے حکومت کی حمایت کریں گے تاکہ کل کو کوئی ڈکٹیٹر پھر پارلیمنٹ کے اختیارات کو سلب نہ کرلے۔
سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی نے دو ججوں کو معیار اور قابلیت پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے اتفاق رائے سے قرار دیا کہ یہ جج بننے کے اہل نہیں لیکن سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد پارلیمانی کمیٹی معطل ہو کر رہ گئی اور اب تک معطل ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ جو فیصلے کئے جائیں ان پر قائم رہا جائے اور کسی کی ناراضگی کی پرواہ نہ کی جائے۔ 18ویں ترمیم میں اچھا فیصلہ کیا گیا اور پھر خوف کی وجہ سے 19ویں ترمیم لائی گئی۔
تبصرے (1) بند ہیں