ریاست کا جُرم
ریاستی جرائم کے خلاف، لاپتا افراد کے محاذ پر عدلیہ کے جاری جہاد میں شدت آچکی ہے۔ جیسا کہ مطالبہ کیا ہے، اگر آج تک لاپتا افراد کو سپریم کے کورٹ کے روبرو پیش نہ کیا گیا توپھر نظر یہی آتا ہے کہ عدالت ایسی سزائیں دے گی، جس کی پہلے سے کوئی مثال موجود نہیں ملے گی۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کے پاس اگرچہ اب اس معاملے کو دیکھنے کے لیے صرف ایک ہفتہ رہ گیا ہے لیکن شہریوں کو ریاستی تشدد، بدسلوکی اور غیرقانونی حراست سے بچانے کی خاطر، لڑی جانے والی یہ طویل لڑائی پھر بھی جاری رہے گی۔
مایوس کُن حقیقت یہ ہے کہ جب وہ ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے والے لوگوں کے خلاف، ملک کے مجموعی لوگوں کو حاصل آئینی حقوق کے دفاع میں آگے بڑھتی ہے تو سلامتی کے توازن سے بہت دور، غیرقانونی حدود میں داخل ہوجاتی ہے۔
اس معاملے میں ریاست کس حد تک دور چلی جاتی ہے، اس کا ثبوت پیر کو سپریم کے سامنے حکومت کا یہ اعتراف ہے کہ دو لاپتا افراد حراست کے دوران ہی فوت ہوچکے۔ اگرچہ حکام کا دعویٰ ہےکہ اُن کی اموات کی وجہ فطری ہیں تاہم اس دعوے پر کون یقین کرے گا۔
گذشتہ کئی برسوں سے یہ کھلا سچ سب کے سامنے ہے کہ جن لوگوں کو بلوچستان، میدانِ جنگ بنے خیبر پختون خواہ اور فاٹا سے اغوا کرکے غیرقانونی حراست میں رکھا جارہا ہے، انہیں دورانِ حراست سیکیورٹی اہلکار بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
یہ غلط کہ ایسا ان کی ذمہ داری ہے ، یہاں دومیں سے صرف ایک آپشن موجود ہے: چاہے ریاست، یعنی سیکیورٹی حکام اور حکومت جو عام طور پر اسے کنٹرول کرتی ہے، یا تواس نے اپنے طور پرایسا کیا یا ایسا کرنے کے لیے ان پردباؤ ڈالا تھا۔
اب تک تو صاف ہوچکا کہ ان کی خوداصلاحی بہت محدود ہوچکی: قیدیوں سے نمٹنے اورمتعلقہ قوانین میں ازسرِ نو تبدیلیوں کی خاطر کی جانے والی کوششوں پر اپنائے گئے سخت رویوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لاپتا افراد کے اٹھائے گئے معاملے کو ناگوار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے، تاریکی میں موجود نادیدہ دشمن کے خلاف بدستور کمر بستہ ہیں۔
قیدیوں کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک، آئین کی بالادستی کی خاطر اس میں دیے گئے تحفظات اور حقوق کا احترام اور کامیاب جرح (پراسیکیوشن) کے بجائے، متعلقہ حکام کے از خود اٹھائے گئے اقدامات نے صورتِ حال کو پیچیدہ بنادیا ہے۔
لہٰذا قانون نافذ کرنے والوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بعد، اس سلسلے کے خاتمے کےلیےصرف ایک راستہ ہی باقی بچتا ہے: عدالتی مداخلت۔
سن دو ہزار نو سے لے کر اب تک سپریم کورٹ نے از خود متعدد معاملات میں مداخلتیں کی ہیں، لیکن لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اس کی کوششیں بجا طور پر قابلِ فخر میراث ہے۔
وہ بے شمار لوگ جن کے چہرے اور نام اب تک گمنام ہیں، ان کی خاطر سپریم کورٹ جو لڑائی لڑ رہی ہے اسے جاری رہنا چاہیے۔