• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:31pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:11pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:30pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:31pm

دوبارہ 'سو موٹو'؟

شائع December 10, 2013
فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ کی اعلیٰ سطح پر ہونے والی متوقع تبدیلی اپنے ساتھ امیدیں اور نئی توقعات لائی ہے- قانون کی حکمرانی کی تحریک نے جس آئیڈیلزم اور تبدیلی کے وعدے کو جنم دیا تھا اور چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے بعد جسے بار بار گنوایا گیا تھا جس نے ایک بار پھر ہماری امیدوں کو سرد کردیا تھا-

لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں تبدیلی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور جسٹس تصدق جیلانی جو ہر دلعزیز، باوقار اورغور و فکر کے حامل ہیں اور چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں، بے یقینی کی کیفیت کو ختم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں-

حالیہ دنوں میں نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے مقدمے کا جو فیصلہ جاری کیا گیا وہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انصاف کی اعلیٰ ترین سطح پر معاملات کس قدر غلط رخ اختیار کر چکے ہیں-

یہ فیصلہ ایک مفید مثال ہے، اس لئے نہیں کہ یہ فیصلہ غلط تھا؛ عدالتوں کو روز ہی فیصلے دینے ہوتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ بعض اوقات غلط فیصلے بھی ہو جائیں- این آئی سی ایل کے فیصلے سے ہم سبق سیکھ سکتے ہیں کیونکہ اس سے عدالت عظمیٰ کی کارکردگی پر روشنی پڑتی ہے جس کا مقصد نتائج پیدا کرنا بن چکا ہے نہ کہ صرف فیصلہ دینا کہ کون سی چیز قانونی ہے اور کونسی نہیں-

فیصلے سے ہمیں یہ پتا نہیں چلتا کہ کس کی وجہ سےاین آئی سی ایل اسکینڈل میں کڑوڑوں کا نقصان ہوا، کونسے قوانین توڑے گئے اور جرم کس طرح کیا گیا تھا اور ابتدائی شواہد کی بنیاد پر چند سول سرونٹس کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے کن ثبوتوں کو پیش نظر رکھا گیا-

یہ فیصلہ جس میں کڑے معیار، منطقی دلیل اور سوچ بچار کی کمی نظر آتی ہے، اس طریق کار کا فطری نتیجہ ہے جس میں از خود نوٹس لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں کارروائی کی جاتی ہے جس میں مشورہ کے ذریعے قانونی مدد لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی-

این آئی سی ایل کے فیصلے کا سب سے پہلا شکار قمر زماں چودھری ہیں، جنھیں حال ہی میں نیشنل اکاونٹیبلیٹی بیورو کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا جنہیں اب فرائض ادا کرنے سے روک دیا گیا ہے-

چیئرمین نیب کے خلاف دو طرح کے الزامات لگائے گئے- ایک تو یہ کہ ایڈیشنل سکریٹری کی حیثیت سے انہوں نے این آئی سی ایل کے چیئرمین کے طور پر ایاز نیازی کی تعیناتی کو روکنے کی کوشش نہیں کی (جن کا نام دو مزید امیدواروں کے ساتھ وزارتی سمری میں شامل تھا) اور اسطرح وہ اپنے فریضے کی انجام دہی میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں نیازی کو این آئی سی ایل کا چیئرمین تعینات کیا گیا-

دوسرا یہ کہ، سکریٹری داخلہ کی حیثیت سے انھوں نے ظفر قریشی کے تبادلہ کو نہیں روکا جو فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی میں کام کرتے تھے اور جنہیں سپریم کورٹ نے این آئی سی ایل کے معاملے میں تحقیقاتی افسر مقرر کیا تھا اور جن کا اسٹبلیشمنٹ ڈویژن نے ڈی جی ایف آئی اے کی سفارش پرتبادلہ کر دیا تھا جس کی سمری وزارت داخلہ کے ذریعے بھیجی گئی تھی، چنانچہ وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے- دلچسپ بات یہ ہے کہ توہین عدالت کے معاملے کو التوا میں رکھ دیا گیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فوری نوعیت کا نہیں تھا-

فیصلے کو پڑھ کر اور وزارتوں کے درمیان بھیجی جانے والی سمریوں کی تفصیلات کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ این آئی سی ایل کے معاملے میں قمر زماں چودھری، عبدالروف چودھری (ان دنوں وہ اسٹیبلیشمنٹ سکریٹری تھے اور اب وہ ٹیکس کے وفاقی محتسب ہیں) اور نرگس سیٹھی اصلی مجرم ہیں-

اصل اسکینڈل ---تہائی مہنگے داموں زمین کی خرید و فروخت، وہ بھی غیر قانونی طور پر اوربغیر قبضہ--- یہ ساری باتیں عدالت کے فیصلے میں نظر نہیں آتیں-

این آئی سی ایل کے فیصلے کا متن اور اس کا وقت اور بھی کئی بڑے سوالوں کو جنم دیتا ہے- آیا انتظامی افسروں کا تقرر انتظامیہ کے دائرہ عمل میں آتا ہے یا عدلیہ کے؟ اگر کسی تعیناتی کے سلسلے میں مفادات کا ٹکراؤ یا اقربا پروری نظر آئے تو فیصلہ سازی میں دیانت داری کا جائزہ لینا اور بات ہے اور یہ دیکھنا اور بات کہ آیا رسمی کارروائیاں پوری کی گئیں یا نہیں تاکہ ناپسندیدہ شخص کو ہٹا دیا جائے اس بنیاد پر کہ تعیناتی کا فیصلہ غیر دانشمندانہ تھا-

سپریم کورٹ نے پہلے یہ تجویز پیش کی تھی کہ نیب کے چیئر مین کا تقرر کرتے وقت چیف جسٹس سے مشورہ کیا جائے- فصیح بخاری کے معاملے میں، جسٹس آصف کھوسہ نے یہ وضاحت کر کے کہ مشورہ لازمی نہیں اس معاملے کو طے کر دیا تھا-

فرض کر لیجئے کہ قمر زماں چودھری کے تقرر کا فیصلہ بالکل غلط تھا- لیکن ان کی تعیناتی قانون کے مطابق مشورہ کے بعد کی گئی تھی- اگر وہ ناکام ہوئے تو ہم پی ایم ایل-ن اور پی پی پی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں- کیا عدالتیں انتظامیہ کے انتخاب کی دانشمندی پر نکتہ چینی کر سکتی ہیں؟

ابتدائی طور پر افراد کو ذمہ دار ٹھہرانے سے پہلے سپریم کورٹ کو کس معیار کے شواہد کی ضرورت ہے؟ اس بات کے پیش نظر کہ عدالت عالیہ ٹرائل کورٹ نہیں ہوتی اور کسی فرد کے جرم کا تعین اس پر مقدمہ چلانے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے جس کے لئے معقول شواہد کی ضرورت ہے کہ ملزم کا عمل غیر قانونی تھا اور اس نے جان بوجھ کر کیا تھا، تو ایسی صورت میں عدالت کس بنیاد پر سمری کے دوران ابتدائی رائے قائم کر سکتی ہے؟

آپ کس طرح اس بات کی یقین دہانی حاصل کر سکتے ہیں کہ ان مقدمات میں انصاف ہوتا نظر آئے جہاں خود عدالت از خود نوٹس لیتے ہوئے مدعی بن جائے؟ کیا انصاف کے ان روایتی اصولوں پر کہ عدالت کی کوئی بھی کارروائی کسی شخص کے خلاف اس وقت تک نہ ہو جب تک کہ اسے مجرم ثابت نہ کر دیا جائے، پاکستان میں بھی عمل ہوتا ہے؟ اگر ہوتا ہے، تو کیا سپریم کرٹ کی جانب سے فرد جرم کا ابتدائی اقدام آئین کی دفعہ 10- اے کے تحت فرد کے حقوق پر اثر انداز نہیں ہوتا؟

کیا عدالت از خود نوٹس کے مقدمات میں افراد کے خلاف اعتراضات کر بھی سکتی ہے، جب تک ماتحت عدالت میں ان پر مقدمہ چلا کر انھیں بے گناہ یا مجرم ثابت نہ کیا جائے جب کہ یہ عدالتیں سپریم کورٹ کی راۓ کی پابند ہوتی ہیں اور یہ کہ عدالت کے کسی فیصلہ پر نظر ثانی کےامکانات انتہائی کم ہوتے ہیں؟

اگر بد عنوانیوں کے از خود نوٹس کے مقدمات کا حتمی نتیجہ یہ نکلے کہ اصلی مجرم آزاد گھومتے رہیں لیکن ان بیوروکریٹس پر مقدمے چلائے جائیں جو اس میں واضح طور پر ملوث نہیں ہیں تو ہم سول سروس کی مدد کر رہے ہیں یا اسے نقصان پہنچا رہے ہیں؟

اب وقت آگیا ہے کہ سپریم کورٹ دفعہ 184(3) کے تحت اپنے دائرہ اختیار کی وسعت اور طریق کار پر نظر ثانی کرے- اہمیت اس بات کی ہے کہ ان امور کو واضح کیا جائے جن کا از خود نوٹس لیا جاسکتا ہے اور یہ کہ طریق کار کی نوعیت کیا ہوگی جو اس اختیار کو استعمال کرنے کا نتیجہ ہو سکتی ہیں-

اس بات کو لازم بنایا جائے کہ از خود نوٹس لینے کے اختیارات کو انتظامیہ کے دائرہ اختیار کو غصب کرنے کے لیئے یا فرد کے حقوق کو گھٹانے یا قانونی اور کاروباری بے چینی پیدا کرنے کے لیئے استعمال نہ کیا جائے-

سپریم کورٹ نے چیف جسٹس چودھری کے تحت جواب دہی کا ایک ایسا نظام تشکیل دیا تھا جس میں میڈیا نے مدعی اور تالیاں بجانے والے کا رول ادا کیا اور جیوری اور کورٹ، تفتیش کنندہ، استغاثہ کے وکیل اور جج بن گئے-

اگرچہ اس عارضی نظام کے تعلق سے شروع شروع میں جوش دیکھنے میں آیا لیکن یہ تجربہ ناکام رہا- اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک دیرپا نظام قائم کریں جہاں تفتیش اور استغاثہ انتظامیہ کے دائرہ کار میں ہو، کورٹ غیر جانب دار ثالث کا رول ادا کریں نہ کہ جہادی کا، میڈیا اسی طرح سوالات اٹھائے لیکن جانب دار فریق بن کر نہیں-

انگلش میں پڑھیں

ترجمہ: سیدہ سالحہ

بابر ستار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 10 نومبر 2024
کارٹون : 8 نومبر 2024