• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

طاقت کا نیا توازن

شائع December 14, 2013
پرائم منسٹر پاکستان، میاں محمّد نواز شریف -- فائل فوٹو
پرائم منسٹر پاکستان، میاں محمّد نواز شریف -- فائل فوٹو

کئی مہینوں کے بعد یہ بے یقینی کی کیفیت پچھلے ہفتے ہی ختم ہوئی ہے- نئے فوجی سربراہ کا انتخاب بہت زیادہ حیرت انگیزنہیں ہے- یہ نوازشریف کا محتاط طریقے سے کھیلنے کا اپنا انداز تھا کہ ایک نسبتاً کم شہرت والے افسر کا انتخاب اس طاقتور اور اہم عہدے کیلئے کریں-

ایک مرتبہ اپنے خاص طور پر منتخب کئے ہوئے فوجی سربراہ کے ہاتھوں حکومت سے برطرف کئے جانے کے بعد اور انکی پچھلی حکومتوں کے دوران فوجی سربراہوں کے ساتھ ان کے ہنگامہ خیز تعلقات کی تاریخ کی وجہ سے نواز شریف محتاط اور بےیقینی کا شکار ہوگئے تھے-

لہٰذا ایک سادہ مزاج، مشکوک ماضی کی روایت کے بغیر اور سینیارٹی میں نچلے درجے پر ہونے کی وجہ سے ان کا انتخاب ایک محفوظ فیصلہ تھا- جنرل راحیل شریف کی تقرری جنرل مشرف کےفوجی دورحکومت سے مکمل طور پر مختلف ہے-

اس کے ساتھ ایک نئے چیف جسٹس کی تعیناتی نے سیاسی منظر کو بالکل تبدیل کردیا ہے اور طاقت کے توازن کو سیاسی حکومت کی طرف جھکا دیا ہے-

لیکن اگر نوازشریف کی حکومت کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہوتی تو یہ ایک عارضی صورت بھی ہو سکتی ہے- کیونکہ عموما پاکستانی سیاست کے پنڈولم کو دوسری طرف جھکنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی- ماضی اس بات کا گواہ ہے-

فوج میں قیادت کی تبدیلی اور نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کے ساتھ، ریاست میں اقتدار کے مراکز میں اختیارات کی تبدیلی مکمل ہوچکی ہے- یہ انتہائی ہموار انتقال اقتدار کا عمل جو ایک منتخب حکومت سے دوسری کے موقع پر شروع ہوا تھا ملک میں جاری جمہوری و سیاسی عمل کے حوالے سے اگلا بڑا قدم ہے-

نیشنل اسمبلی میں ایک بڑی اکثریت اور سب سے طاقتور صوبے میں پارٹی کی مضبوط گرفت اور دو اہم ریاستی اداروں کے سربراہوں کی نئی تعیناتی کے ساتھ نوازشریف کم ازکم ابھی بہت آرام سے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان نظر آتے ہیں-

ایک کمزور اور بکھری ہوئی حزب اختلاف بمشکل ہی حکومت کے لئے کسی قسم کی مشکلات پیدا کرسکتی ہے- لیکن مسٹر شریف کی حکومت کی پائداری اپنی کارکردگی یا ناکارکردگی پر منحصر ہے- اقتدار پر مستحکم گرفت کے باوجود، ان کی غیر حاضر حکومت سے مستقبل میں بہت زیادہ امید نہیں ہے-

ایک ضروری عنصر موجودہ سول-ملٹری تعلقات کی نوعیت ہے- جنرل اشفاق پرویز کیانی کی روانگی کے بعد، جنہوں نے دو جمہوری سیاسی تبدیلیاں اپنے چھ سالہ دورمیں دیکھی ہیں، یہ مسئلہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے-

سابق فوجی سربراہ کا اس کمزور جمہوری نظام کوچلانے میں جو کردار رہا ہے اس کی اہمیت کم نہیں کی جا سکتی- اگرچہ کہ سول-ملٹری تعلقات جنرل کیانی کے زمانے میں بہت ہموارنہیں تھے، اس کے باوجود بھی فوج کی جانب سے جمہوری نظام کے پٹڑی سے اترنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا-

ایسا لگتا ہے، جنرل کیانی اور مسٹر شریف کو ایک دوسرے کے ساتھ کوئی مسائل نہیں تھے، ہوسکتا ہے حالیہ دنوں میں طالبان سے مذاکرات کےمسئلہ پر کچھ تنازعات ابھرے ہوں- حکومت کی جنگجوؤں کے ساتھ مصالحت کی پالیسیوں پر فوج کچھ ناخوش نظر آتی ہے- فوج تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے خلاف شائد نہ ہو، لیکن ان کی شرائط پر نہیں-

حکومت کی طرف سے میجر جنرل ثناءاللہ نیازی کے قتل پر معذرت خواہانہ ردعمل اور اسی طرح کے طالبان کے دوسرے حالیہ حملوں نے ان غلط فہمیوں میں اضافہ کیا ہے-

آئی ایس پی آر کی جانب سے جماعت اسلامی کی بے مثال مذمت، جو حکیم اللہ محسود کو شہید کا درجہ دینے کے ردعمل پر تھی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سےجنگجووں کے ساتھ نرم رویہ، فوج کی بڑھتی ہوئی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے-

یہ ناراضگی ٹی ٹی پی کے لیڈروں کے بیان پر اور زیادہ بڑھی جس میں براہ راست فوج کو نشانہ بنایا گیا تھا-

اس بیان میں، طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے حکومت کے ہارون اسلم کو سربراہ نہ بنانے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا اور ان کو 'سوات کا قصائی' کہا تھا اس لئے کہ انہوں نے پوچڑ میں اس کمانڈو آپریشن کی قیادت کی تھی جہاں سے ملا فضل اللہ 2009ء میں دہشت گردی کی کارروائیاں کیا کرتا تھا-

وزیراعظم اور نئے فوجی سربراہ دونوں کے لئے فوج کی صفوں میں بے چینی کا تدارک ایک سنجیدہ چیلینج ہوگا- سول اور ملٹری قیادت کے لئے اس عسکری شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے جو جمہوریت کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے، خیالات میں ہم آہنگی اشد ضروری ہے-

دہشت گردی اور تشدد پسندی کے خلاف حکومت کی ہچکچاہٹ اور مشکل فیصلہ نہ لینے کا رویہ نہ صرف فوج میں بددلی پیدا کرنے کا سبب بنیگا بلکہ قوم میں بھی تفریق کا موجب ہوگا- پچھلے ہفتے وزیراعظم کے لئے زیادہ اہم واقعہ، بہرحال، سپریم کورٹ کے سپر فعال چیف جسٹس کا ریٹائرمنٹ کا اعلان تھا-

اگرچہ ان کے جانے میں ایک دو ہفتے ہی رہ گئے تھے، لیکن صدر صاحب نے فوراً ہی سب سے زیادہ سینیئر جج کو ترقی دیکر ان کی تعیناتی کی منظوری دیدی- اتنی بڑی عوامی حمایت سے بحال ہونے کے بعد، جسٹس چودھری عدالتی رول کو اس کی حد سے آگے لے جاکر اعلیٰ انتظامیہ کو بھی مشکل میں ڈالتے تھے-

اگرچہ کہ زرداری حکومت کو حد سے بڑھی ہوئی جوڈیشل ایکٹیوزم کا زیادہ مزا چکھنا پڑا، لیکن موجودہ حکومت کے بھی بہت سارے فیصلے اس موجودہ عدالت نے کالعدم کردئے ہیں --- جس میں توانائی کی قیمت میں اضافہ وغیرہ ہے- جسٹس چودھری نے کسی کو نہیں بخشا-

کئی قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ان کے جانے سے عدالتی کارروائیوں میں توازن آئیگا اور سیاسی کاروائیوں میں رکاوٹ کا سدباب ہوگا-

ایک کم فعال عدالت اگر اعلیٰ انتظامیہ کے اوپر حاوی ہونے کی کوشش نہ کرے تو حکومت کچھ اہم فیصلے آزادی سے کرسکتی ہے، خصوصاً وہ جن کا تعلق معیشت اور پرائیویٹائیزیشن سے ہوتا ہے- لیکن اس کے ساتھ یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ ایک کمزور عدلیہ نظام میں طاقت کے توازن کو قائم رکھنے والے عوامل کو ختم نہ کردے-

مسٹر شریف کا اقتدار پر مکمل گرفت حاصل کرنے کا رجحان، اور ایک کمزورعدلیہ ایک ایسا خطرناک نسخہ ہے جس کی زد سے موجودہ جمہوری سیٹ اپ نہیں بچ سکتا-

یقینی طور پر، طاقت کا توازن شریف حکومت کی مکمل حمایت میں جھکا ہوا ہے جبکہ ابھی تک یہ دیکھنا باقی ہے کہ وزیراعظم اسے بہتر حکمرانی اور اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کے لئے کیسے استعمال کرتے ہیں اور تشدد پسندی کے مسئلے پر ایک مستحکم موقف کیسے اپناتے ہیں- اس میں ناکامی طاقت کے توازن کو ان کے خلاف جھکا دیگی-

غیرملکی دورے بہت ہوگئے؛ جناب وزیراعظم صاحب- اب وقت گھر کے اندر کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینے کا ہے-

انگلش میں پڑھیں

                       ترجمہ: علی مظفر جعفری
زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024