ریپ کی سزا
یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیاں اور اُن پر جنسی حملے عام بات ہے اور ان سے جُڑا تشدد دن کے اُجالے میں کسی برفانی گولے کی چوٹی پر رکھی، بڑی شے کی مانند صاف دیکھا جاسکتا ہے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ تصور کرنا منطقی ہوگا کہ ملک گیر سطح پر قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمارے شہروں اور قصبوں میں ترجیحی بنیادوں پر، اس طرح کے کیسز میں ملوث مشبہ ملزمان کا پتا چلا کر انہیں انصاف کے کٹہرے میں پہنچائیں لیکن افسوس کہ یہ تصور کرنا ہی غلط ہوگا۔
خواتین کو نجی طور پر روزانہ اس سفاک رویے کی جن متعدد اشکال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں ایک طرف رکھیے۔ صرف سب سے سنگین جرم ریپ اور حکومت، قانون نافذ کرنے والے حکام اور نظامِ انصاف کی عین ناک کے نیچے، اسلام آباد میں اس کی شرح پر غور کیجیے۔
گذشتہ پانچ سالوں کے دوران وفاقی دارالحکومت میں ریپ کے ایک سو تین کیسز پولیس کے پاس درج ہوئے، جن میں ایک سو پچاس ملزمان کوگرفتار کیا گیا لیکن ان میں سے کتنوں کو کیے کی سزا ملی؟ اور جیسا کہ جمعرات کو سینیٹرز کو آگاہ کیا گیا تھا، کسی ایک کو بھی نہیں۔
اگرچہ تیس مشتبہ ملزمان بری ہوچکے اور تریپن کیسز اب تک زیرِ سماعت ہیں تاہم جہاں تک ملزمان کو سزا ہونے کا تعلق ہے تو دارالحکومت پولیس کے پاس رجسٹرڈ ریپ ایف آئی آرز کے تحت گرفتار کسی ایک بھی ملزم کو عدالت سے سزا نہیں مل سکی۔
جب وفاقی دارالحکومت میں یہ صورتِ حال ہے تو سوچیے کہ باقی ملک، خاص طور پر دیہی علاقوں میں کیا صورتِ حال ہوگی کہ جہاں خواتین کے خلاف متعصب رویے پہلے ہی واضح پہچان رکھتے ہیں۔ اس بارے میں تو صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔
پولیس اور عدلیہ کی عدم کارکردگی پر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے تمام ارکانِ سینٹ نے جمعرات کو بطور احتجاج ایوان سے علامتی واک آؤٹ کیا تھا لیکن لگتا نہیں کہ یہ معاملہ حل ہوجائے گا۔
ریپ اور خواتین کے خلاف تشدد کی دیگر اقسام کے خاتمے کی خاطر کامیابی کا سب سے بنیادی عنصران مقدمات کی تفیش، جرح اور سماعت ہے۔
جب ان مقدمات کو واضح ترجیح دیے جانے کے اب تک کوئی آثار نہیں تو پھر ہم اس طرح کے جرائم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانے کی توقع کیسے کرسکتے ہیں؟