• KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:49pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:19pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:23pm
  • KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:49pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:19pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:23pm

چار سو پینتالیس ارب روپے کے واجبات۔ بجلی کے ایک نئے بحران کا خدشہ

شائع December 23, 2013
ڈان کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق بقایا جات کا ایک اہم حصہ تین سو پچیس ارب روپے کی رقم ہے، جو نجی شعبے پر واجب الادا ہے، جبکہ سرکاری اداروں کو ملک بھر میں کام کرنے والی بجلی کی کمپنیوں کو ایک سو بیس ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ —. فائل فوٹو
ڈان کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق بقایا جات کا ایک اہم حصہ تین سو پچیس ارب روپے کی رقم ہے، جو نجی شعبے پر واجب الادا ہے، جبکہ سرکاری اداروں کو ملک بھر میں کام کرنے والی بجلی کی کمپنیوں کو ایک سو بیس ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: بجلی کے شعبے میں سینکڑوں ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے باوجود حیرت انگیز طور پر ملک بھر میں حکومت تاحال بجلی کی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے چار سو پینتالیس ارب روپے کے بقایاجات کی مقروض ہے۔ جس کے نتیجے میں بجلی کے شعبے میں ایک بار پھر مالیاتی صورتحال خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

ڈان کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق بقایا جات کا ایک اہم حصہ تین سو پچیس ارب روپے کی رقم ہے، جو نجی شعبے پر واجب الادا ہے، جبکہ سرکاری اداروں کو ملک بھر میں کام کرنے والی بجلی کی کمپنیوں کو ایک سو بیس ارب روپے ادا کرنے ہیں۔

بجلی کے شعبے کے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ یہ رقم کچھ عرصے سے زیرِ التوا پڑی ہے، اور مجموعی طور پر نجی شعبے کے بااثر صارفین ادائیگی میں مزاحمت کرتے رہے تھے، یا پھر ایک یا کئی بہانے پیش کررہے تھے۔

مذکورہ اہلکار نے بتایا کہ اس رقم کی وصولی کے لیے حکومت کی ناکامی کی بنیادی وجہ سیاسی مصلحت تھی۔ اس وقت کسی فیصلے پر جلداز جلد پہنچنا ہے، جبکہ مسلم لیگ نون کی حکومت بااثر نادہندگان پر ہاتھ ڈالنے سے بھی گریز کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ادائیگی میں تاخیر کی شاطرانہ تدبیر یہ ہے کہ صارفین بقایا بلوں پر قانونی چارہ جوئی کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، اور نئے کنکشن کو محفوظ بنالیتے ہیں۔

اقتدار سنبھالتے ہی موجودہ حکومت نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پیز) کو چار سو اسّی ارب روپے کی ادائیگی کی تھی، اور دعویٰ کیا تھا کہ اس نے گردشی قرضوں کی ادائیگی کرکے ایک بلا کو ٹال دیا ہے، اور نیشنل گرڈ میں بجلی کی روانی کو بہتر بنا دیا ہے۔

جبکہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حزب اختلاف نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس رقم کی ادائیگی سے آئی پیز مالکان کو فائدہ پہنچایا گیا ہے، یہ گردشی قرضے دوبارہ بڑھنا شروع ہوگئے ہیں، لیکن حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایسا لاگت اور بجلی کی قیمتوں کے درمیان خلاء کے بڑھنے کی وجہ سے ہے۔

ایک سال کے دوران کوئٹہ الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی کی واجب الادا رقم مجموعی طور پر اٹھاسی ارب روپے ہوچکی ہے۔

نجی شعبے نے اس سال اکتوبر سے اپنے بلوں کی ادائیگی سے انکار کرکے اس کمپنی کو نیچے گرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، جو اکیاسی ارب روپے تک جاپہنچے ہیں، جبکہ حکومت پر سات ارب روپے واجب الادا ہیں۔

اس کے علاوہ دوسری پشاور الیکٹرسٹی سپلائی کمپنی ہے، جو پچاسی ارب روپے کی وصولی کے لیے کوشش کررہی ہے۔ یہاں بھی اٹھاون ارب روپے کے بلز نجی شعبے کو ادا کرنے ہیں، جبکہ سرکاری شعبے پر ستائیس ارب روپے واجب الادا ہیں۔

سکھر الیکٹریسٹی پاور کمپنی کے ستّر ارب روپے واجب الادا ہیں، جن میں سے پینتالیس ارب روپے نجی شعبے اور پچیس ارب روپے سرکاری شعبے کے ہیں۔

حیدرآباد الیکٹریسٹی پاور کمپنی کو چوالیس ارب روپے وصول کرنے ہیں، جن میں سے ستائیس ارب روپے حکومت اور سترہ ارب روپے نجی صارفین کے ہیں۔

لاہور الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی کے بقایا جات تینتالیس ارب روپے تک جاپہنچے ہیں، اڑتیس ارب روپے نجی شعبے کے ہیں، اور پانچ ارب روپے سرکاری اداروں کے ہیں۔

اسلام آباد الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی کو حکومت سے بائیس ارب روپے اور نجی شعبے سے چار ارب روپے وصول کرنے ہیں۔

ملتان الیکٹریسٹی پاور کمپنی نجی شعبے کی طرف واجب الادا رقم اکتیس ارب روپے ہوچکی ہے، اور حکومت پر دو ارب روپے بقایا ہیں۔

گجرانوالہ الیکٹریسٹی پاور کمپنی نے نجی شعبے سے سات ارب روپے اور سرکاری شعبے سے چار ارب روپے وصول کرنے ہیں۔

فیصل آباد الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی کے صارفین پر دس ارب روپے کے بقایاجات ہیں، جن میں سے تیرہ کروڑ نوّے لاکھ روپے کی رقم حکومت پر واجب الادا ہے، اور باقی رقم نجی شعبے کو ادا کرنے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 19 ستمبر 2024
کارٹون : 17 ستمبر 2024