سال جو گزر گیا...جیسے تیسے
دو ہزار تیرہ پاکستان کے لیے ایک دلچسپ سال رہا- ایک بار پھر دہشتگردی، شیعہ اور احمدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور تشدد اور پولیو کارکنوں کے قتل عام جیسے چھوٹے چھوٹے واقعات اور دیگر بے وقت معاملات کے علاوہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ کچھ شاندار لمحے بھی دیکھنے کو ملے-
سب سے پہلے، یہاں مجھے دہشتگردی جیسے معمولی مسئلہ پر تھوڑی گل افشانی کرنے کی اجازت دیں- لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سال دو ہزار تیرہ میں اس سلسلے میں کچھ غیر معمولی پیشرفت ضرور ہوئی جس کا ذکر کیا جانا ضروری ہے-
اس بار آخر کار میڈیا کو اتنی عقل آئی کہ وہ امریکی ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے افراد کے لئے لفظ 'مشتبہ' استعمال کرے-
جی ہاں، بہت سے 'مشتبہ دہشتگرد' سنہ دو ہزار تیرہ میں امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں مارے گۓ- آخر کو جب تک ان کا جرم ثابت نہیں ہو جاتا یہ سب 'مشتبہ' ہی تو ہیں، بھلے ان میں سے کچھ، اپنے مشتبہ بھائیوں کی اسلام دشمنوں کے سر قلم کرنے کی ویڈیو نیٹ پر جاری کر تے ہوں-

امید ہے کہ سال دو ہزار چودہ میں، میڈیا عدالتی فیصلے کے مطابق مشتبہ انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہونے والے مشتبہ تخریب کاری کے شکار افراد کے لئے بھی لفظ 'مشتبہ' استعمال کرنے لگیں گے-
سال دو ہزار چودہ کی ہیڈلائن کچھ یوں ہوگی: 'ش ق مشتبہ شہری، مشتبہ عسکریت پسند کے مشتبہ خودکش حملے کا شکار ہو گۓ- یہ مشتبہ عسکریت پسند، مصدقہ ڈرون حملوں میں مصدقہ معصوم شہریوں کی موت پر چراغ پا تھے-' یہ ایک سچا مقصد ہوگا اور قومی مفاد اور عمران خان کے چیرٹی بال کے لئے بہترین خدمت-

اور اس طرح ہم آتے ہیں سال دو ہزار تیرہ کے ایک اہم ایونٹ کی طرف:
پاکستان میں مشتبہ عسکریت پسندی اور مشتبہ انتہا پسندی جیسے معمولی معاملے کے لئے بلائی گئی (یا بٹھائی گئی؟) آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی)-
اے پی سی، میاں نواز شریف کی مسلم لیگ-ن حکومت کی طرف سے منعقد کی گئی، جنہوں نے تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو مشتبہ دہشتگردی اور مشتبہ دہشتگرد تنظیموں کے معاملے پر اتفاق راۓ کے لئے مدعو کیا-
انتہائی سمجھداری اور زیرک فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوے تمام پارٹیوں نے اس معمولی سے معاملے پر مزید وقت ضائع بغیر جھٹ سے ایک اتفاق راۓ قائم کر لیا- یہ اتفاق راۓ بھی پختگی، عقل اور بصیرت سے بھرپور تھا-
تمام پارٹیوں نے انتہائی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوۓ یہ فیصلہ کیا کہ مشتبہ انتہا پسندی اور انتہا پسند تنظیموں جیسے معمولی معاملات سے نمٹنے کے بہترین حل ان مشتبہ عسکریت پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات ہیں-

مشتبہ عسکریت پسندوں نے اے پی سی کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا اور مذاکرات کے پہلے راؤنڈ کا آغاز پشاور کے ایک چرچ میں کیا- سو سے زائد مشتبہ کرسچین شہریوں نے امن کی خاطر اپنی جان کے نذرانے پیش کیے-
ایک ہفتے کے اندر اندر مشتبہ دہشتگردوں نے ویسا ہی ایک اور امن مذاکرات کا راؤنڈ پشاور کے مشہور قصّہ خوانی بازار میں پیش کیا یہاں بھی کم و بیش 80 مشتبہ شہریوں نے امن کے نام پر جان دے دی-
ان کامیاب مذکرات کے نتیجے میں پاکستان ملٹری کے ساتھ بھی مذاکرات کیے گۓ جہاں ایک مشتبہ سینئر آرمی افسر امن کے نام پر قربان ہو گیا-
بدقسمتی سے، جیسے جیسے امن مذاکرات آگے بڑھ رہے تھے اور مشتبہ شہری اور مشتبہ ملٹری اہلکار امن کی خاطر قربان ہو رہے تھے، ایک مصدقہ امریکی ڈرون حملے میں مشتبہ عسکری لیڈر مارا گیا-
غم و غصے کی لہر پورے ملک میں پھیل گئی- ہمارے بہادر وزیر داخلہ چودھری نثار، امریکیوں پر برس پڑے، انہوں نے الزام لگایا کہ امریکا، مشتبہ دہشتگردوں کے ساتھ پاکستانی گورنمنٹ اور یہاں کی عوام کے امن مذاکرات سبوتاژ کر رہا ہے-
حتیٰ کہ ان کے قریبی رشتہ دار جو سب امریکی شہری ہیں اس المناک اور بے رحمانہ ڈرون حملے پر ناراض ہوۓ- ان سب نے احتجاجاً نیویورک میں سکستھ ایونیو پر ہونے والے سالانہ میسی تھنکس گیونگ پریڈ کا بائیکاٹ کر دیا- یہ ایک قابل تعریف قربانی تھی-
مشتبہ انتہا پسند تنظیم کے کم زکم دو مشتبہ اہم رکن، غیر انسانی ڈرون حملوں میں مارے گۓ- پہلے مشتبہ عسکریت پسند کے بارے میں عمران خان بتاتے ہیں کہ ایک 'امن پسند دہشتگرد' تھا جو ایک پہاڑی کسان جیسی غربت زدہ سادہ سی زندگی گزارنا چاہتا تھا، گٹار بجانا چاہتا تھا اور شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں گوگلی گیندیں پھینکنا چاہتا تھا-
خیر، امریکا نے اس کے اس خواب پر پانی پھیر دیا، اور ملک کی مشتبہ عسکریت پسندوں سے امن مذاکرات اور ان کے ساتھ لمبی داڑھیاں اگانے کی معلومات کے تبادلے کی خواہش دل میں ہی رہ گئی-
لیکن سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت اب بھی امن مذاکرات کے فیصلے پر قائم ہے، اس سے کہیں بہتر خان صاحب کے ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے پر دھرنے ہیں اور یہ اس وقت تک چلتے رہے ہیں جب تک لوگ یہ سوال نہ کرنے لگیں کہ آخر یہ دھرنے کس لئے ہو رہے ہیں-
خان اور انکی انقلابی پارٹی ساتھ ہی انکے کٹر اور اتنے ہی انقلابی حمایتی پارٹی جماعت اسلامی نے وہ راستے بلاک کر دیے جن کے ذریعہ ٹرک اور ٹینکر، مقبوضہ افغانستان میں موجود نیٹو فورسز کے لئے ہتھیار اور دیگر اچھی اچھی چیزیں لے کر جاتے تھے-
دھرنے کے مقام پر بڑے روح پرور منظر دیکھنے کو ملے- جب پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے انقلابی نوجوان اسکول، کالج اور یونیورسٹی چھوڑ چھاڑ کر ان ٹرک ڈرائیوروں --جو ان کے نزدیک پکّے سی آئی اے ایجنٹ تھے-- کو روکنے، ہراساں کرنے اور بعض اوقات لوٹنے کے لئے چڑھ دوڑے-
نیٹو مخالف احتجاج کے ماسٹر مائنڈ ویسے تو عمران خان تھے لیکن ان سب کے پیچھے اصل ہاتھ پی ٹی آئی کی خاتون مرد مجاہد شیریں مزاری کا تھا- کہتے ہیں کے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے دو نیٹو ٹرک مسل کر رکھ دیے-
انکا یہ بھی دعویٰ تھا کہ امریکی ڈرون انہیں بھی نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ڈرون میزائل روک کر یہ حملہ ناکام بنا دیا-

لیکن انوکھے خان صاحب نے اپنے لاکھوں انقلابیوں اور مزاری کو اس وقت مایوس کر دیا جب انہوں نے آگے جا کر اپنے صوبے خیبر پختون خواہ میں پولیو مہم کی قیادت کا فیصلہ کیا-
مشتبہ دہشتگرد جن پر پولیو کارکنوں کے قتل کا شبہ ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ ورکر سی آئی ایجنٹ ہیں جو پولیو ویکسین میں ایسے کیمکل ملاتے ہیں جس سے مسلمان بچے بنجر ہو جائیں گے، یہ سن کر چراغ پا ہو گۓ اور خان صاحب کو مشتبہ دھمکیاں دینے لگے، ادھر مزاری صاحب خود اپنے ہاتھوں سے خان صاحب کو مسل کر رکھ دینا چاہتی ہیں-
لیکن خان صاحب بھی بڑے ضدی ہیں- امید ہے کہ وہ پولیو کے خاتمے جیسے بیکار کاموں کو چھوڑ کر اہم مسائل کی طرف توجہ کرینگے-
دو ہزار تیرہ میں ایک اور بحث چھڑ گئی کہ 'شہید' کہلانے کے حقدار کون لوگ ہیں-
جماعت اسلامی کے انقلابی لیڈر، منور حسین نے ٹی وی پر فرمایا کہ ان کے نزدیک مصدقہ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے مشتبہ دہشتگرد شہید ہیں- ان کے اس تبصرے پر مشتبہ دہستگردوں کے ہاتھوں مشکوک انداز میں ہلاک ہوجانے مشتبہ ملٹری اہلکاروں اور مشتبہ شہریوں کے اہل خانہ نے غم و غصّے کا اظہار کیا-
دوسری طرف جمیعت علما اسلام کے چیف فضل الرحمان، نے یہ ہانک لگائی کہ امریکی ڈرون حملوں میں مارے جانے والا کتا بھی ان کے نزدیک شہید ہے، اس کے بعد سے ان کے آبائی ٹاؤن ڈیرہ اسماعیل خان کے کتے بھی ان کے مداح ہو گۓ ہیں-

مشتبہ دہشتگرد حملوں کے مشتبہ شکاروں کے اہل خانہ اور آئی ایس پی آر کی تنقید کے باوجود منور حسین صاحب نے اپنے الفاظ واپس نہیں لئے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت قول کے سچے انسان ہیں جن کی عقل گھٹنے میں ہے، بلکہ دائیں گھٹنے میں-
کرکٹ بھی سال دو ہزار تیرہ میں توجہ کا مرکز رہی- مختلف چینلز پر کرکٹ ماہرین نے ساؤتھ افریقہ کے خلاف پاکستان کی شکست پر ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا، خصوصاً اپنے زمانے میں ایک کھلاڑی کی حیثیت سے ڈسپلن اور استحکام کے شاہکار، سابقہ فاسٹ بولر شعیب اختر نے، اس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستانی ٹیم میں نظم و ضبط اور استحکام کا فقدان ہے- وہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کو اپنے ہاتھوں سے مسل دینا چاہتے تھے-
اسی دوران، ایک اور سابقہ کھلاڑی، باسط علی، نے طویل تکنیکی معاملات پر غور و غوض کے بعد یہ انکشاف کیا کہ ساؤتھ افریقہ کے ہاتھوں پاکستان کی شکست دراصل ہر سنچری کے بعد ایک طویل سجدہ نہ کرنے کا نتیجہ ہے- انکا مشورہ تھا کہ بیٹس مین کو کم از کم پندرہ سے بیس منٹ اسی حالت میں رہنا چاہیے-
ان کے اس مشورے کی حمایت سابقہ بیٹسمین انضمام الحق نے بھی کی جن کے مطابق پاکستانی بیٹس مین کو ہر دس رن کے بعد ایک سجدہ لازمی کرنا چاہیے-
تاہم، جب مصباح نے، ساوتھ افریقہ میں ہی ساؤتھ افریقہ کو ہرانے پر ایک چھوٹا سا سمجدہ ادا کیا تو ان کے نقاد کا یہ کہنا تھا کہ اصل میں مصباح پھسل گۓ تھے، کیونکہ حقیقت میں وہ ایک 'لبرل فاشسٹ' ہیں جو بعد از میچ تقریبات میں 'خدا کا شکر ہے لڑکوں نے اچھا کھیلا ' کہنے سے گریز کرتے ہیں-

سنہ دو ہزار تیرہ میں آصف علی زرداری نے بھی اپنی پانچ سالہ مدّت پوری کی- حالانکہ چند با وثوق ذارئع اور بصیرت شعار ٹی وی اینکرز کے مطابق انہیں سنہ دو ہزار آٹھ اور پھر سنہ دو ہزار نو میں معزول ہو جانا چاہیے تھا لیکن انہیں اسٹیبلشمنٹ نے بچاۓ رکھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان ٹی وی اینکرز کی بات سچ ثابت ہو اور انکی ریٹنگ میں اضافہ ہو-
سنہ دو ہزار تیرہ میں زردای حکومت کا طرہ امتیاز یہ رہا کہ ان کے وزیر اعظم نے ایک انتہائی برے سکرپٹ، بیکار اداکاری اور آسانی سے فراموش کی جانے والی یو ٹیوب ویڈیو سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے احساسات مجروح ہونے پر، یو ٹیوب پر پابندی لگائی، ہٹائی اور پھر دوبارہ لگا دی-
لیکن یہ سہرہ زرداری حکومت کو جاتا ہے جنہوں نے پاکستان کو یو ٹیوب پر پابندی عائد کرنے والے واحد اسلامی ملک کا اعزاز دلایا، اور اس طرح پاکستان اسلام اور پراکسی سرورز کا مضبوط گڑھ بن گیا-
سنہ دو ہزار تیرہ میں رخصت ہونے والوں میں ہمارے چین سموکنگ کے شوقین آرمی چیف، جنرل پرویز کیانی، بھی شامل ہیں جن کی قریب ترین ساتھی ایک چھڑی رہی جسے وہ طویل مدّت کے دوران گھماتے رہے-

لیکن سب سے اداس کن رخصتی، نشیلی آنکھوں والے، سو موٹو کے مداح، شہ سرخیوں کے دلدادہ، پاکستان کے اپنے ذاتی عدالتی ہیرو، سپر جج، جناب افتخار چودھری کی ہوئی- سنہ دو ہزار آٹھ میں جب سے وہ اپنی پوزیشن پر واپس آۓ تب سے وہ ہر اس چیز اور شخص کے پہلو میں کانٹے کی طرح چبھنے لگے جس سے کسی بھی قسم کی ہیڈلائن اور ٹی وی تجزیہ ممکن ہو-
انہوں نے اقربا پروری اور بدعنوانی کو روند ڈالا، پرائم منسٹرز کو بے دخل کر دیا، انہوں نے ملٹری افسران اور اعلیٰ عہدے داران کو گھرکا، وہ بڑی ہوشیاری سے اپنے بیٹے کے خلاف مشتبہ بد عنوانی کے مشتبہ الزام ٹال گۓ جسے جج کے دشمنوں نے انہیں اپنے جہاد سے روکنے کے لئے استعمال کیا-
انکی عدالت میں مشتبہ فرقہ واریت اور مشتبہ انتہا پسندی کے خلاف مقدموں کو بھی خارج کر دیا گیا، کیونکہ ایک شخص کو محض شبے کی بنیاد پر سزا نہیں دی جا سکتی کیونکہ صرف پرائم منسٹرز کو شبہے کی بنیاد پر سزا دی جا سکتی ہے-
یہ سچ ہے کہ سال دو ہزار تیرہ میں ہزاروں مقدمے نچلی عدالتوں میں التوا کا شکار رہے لیکن یہ سب معمولی باتیں ہیں، جراتمندانہ قدم تو وہ سو موٹو نوٹس ہیں جو چیف جسٹس نے آلو اور ٹماٹر کی قیمتوں پر لیا … آفریں ہے!

ترجمہ: ناہید اسرار
تبصرے (1) بند ہیں