ثالث یا تحریک طالبان پاکستان کے اتحادی؟
ثالثی اور وساطت کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ان دونوں کے درمیان نازک سے فرق کو فراموش کرچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے مولانا سمیع الحق سے کہا ہے کہ وہ طالبان اور اس کے مابین ایک ایماندار دلال کا کردار ادا کریں۔
ایک ہی وقت میں مولانا سمیع الحق نے ثالثی کے کردار کو بھی پسند کیا ہے اور عوامی سطح پر مولانا جس راستے پر چل رہے ہیں، وہ امن کے قیام یا مفاہمت کی کوششوں کے بنیادی اصولوں کے برخلاف ہے۔
ثالثی کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ اس عمل کو خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ہمارے پاس اوسلو امن عمل کی مثال موجود ہے، جب ناروے نے اسرائیل اور فلسطین کی قیادت کے درمیان 1992ء میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔
میڈیا کی نظروں سے بچنے کے لیے یہ مذاکرات اوسلو میں منعقد نہیں ہوئے تھے، بلکہ ناروے کے دارالحکومت کے مضافات میں جہاں بکثرت جنگل موجود تھے، ان مذاکرات کا اہتمام کیا گیا تھا۔
ثالثی کو خفیہ رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں دونوں فریقین کے اصل مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کے عمل کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
اوسلو امن عمل میں بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ فلسطینی وسیٹ بینک اور غزہ پر اسرائیلی قبضے کا ایک پُرامن خاتمہ چاہتے تھے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ثالثی کروانے والا ملک ہو یا فرد بنیادی طور پر اس کا زیربحث معاملے سے غیرجانبدار ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
اگر کوئی ایسا فرد جو پہلے ایک فریق کے ساتھ متفق ہے تو اس کے لیے اس بات کا امکان نہیں کہ وہ دوسرے فریق کا اعتماد حاصل کرسکے گا، دونوں فریقوں کے لیے نرم مؤقف ہی امن کے عمل کو آگے بڑھا سکتا ہے۔
امریکا اور روس بھی اس معاملے میں موجود تھے، انہوں نے اوسلو امن عمل کی ضمانت دی تھی، لیکن وہ حقیقی معنوں میں غیرجانبدار نہیں تھے۔
امریکا کی وابستگی پوری طرح سے اسرائیل کے ساتھ تھی،جبکہ روس کی حمایت فلسطینیوں کی امنگوں کے لیے تھی، جیسا کہ ماسکو کی روایتی پالیسی رہی ہے کہ وہ تمام اطراف کے امکانات کو پیش نظر رکھتا ہے۔ؕ
ناروے حقیقی معنوں میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے ایک مؤثر میزبان اور ثالث کا درجہ رکھتا تھا۔ بالفرض مذاکرات کا سلسلہ کسی وجہ سے درمیان میں ہی ٹوٹ جاتا تو ناروے کی حکومت پر کسی بھی مخصوص فریق کی جانب سے اس کا الزام عائد نہیں کیا جاتا۔
اس دوران کشیدگی کو ذرا بھی ہوا نہیں مل سکی کہ یہ پورا عمل اور اسرائیلی اور فلسطینی وفد کے درمیان اہم مذاکرات دنیا بھر سے مسلسل پوشیدہ تھا۔
اس مذاکرات کے مجموعی طور پر چودہ خفیہ سیشن منعقد ہوئے۔انہیں ایک ہی چھت کے نیچے قیام کرنے اور کہیں زیادہ پرسکون ماحول میں جنگل میں چہل قدمی کے دوران ایک دوسرے کے نکتۂ نظر کو سمجھنے کا موقع ملا۔
یہاں کی صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے، جس طرح کی سرد سفارتکاری کا مظاہرہ دونوں فریقوں نے اوسلو میں کیا تھا۔
مولانا سمیع الحق کی شخصیت غیرجانبداری اور غیرمتنازعہ پہلو سے کہیں دور ہے۔
وہ ناصرف طالبان کے کٹر حامی ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ موجودہ اور پیپلزپارٹی کی قیادت کی حکومت کی انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔
دونوں ہی حکومتوں کے بارے میں مولانا کا خیال ہے کہ وہ امریکا کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اور ان کا مدرسہ جہادیوں کی نرسری رہا ہے۔ ان کے شاگردوں میں سے کچھ تو اب طالبان کی مرکزی قیادت میں اہم عہدے رکھتے ہیں۔
ہم نہیں جانتے کہ جے یو آئی کے اپنے دھڑے کے سربراہ کس طرح سردمہری کو توڑنے کے قابل ہیں، اور پاکستانی ریاست اور اس کے باغیوں کے درمیان مؤثر طور پر امن پیدا کرسکیں گے۔
اگر وہ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو کیا وہ دو مختلف مقاصد پر ضروری بحث کی پیروی کرپائیں گے۔
لیکن اگر وہ ناکام ہوجاتے ہیں، اور جس کا سب سے زیادہ امکان ہے، تو ہمیں اس پر حیرت نہیں ہوگی کہ دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ اگر بغیر وقت ضایع کیے بغیر مذاکرات کی ناکامی کی تنہا ذمہ داری حکومت پر ڈال دیں گے۔
ناکامی کے دیگر نتائج میں یہ سوال بھی سامنے آئے گا کہ اب کیا ہوگا؟ کیا طالبان باغیوں کے پاکستانی شہریوں اور مسلح افواج پر حملے پہلے سے کہیں زیادہ تیز اور خطرناک نہیں ہوجائیں گے؟
حکومت جو پہلے ہی ہتھیار لپیٹ کر بیٹھی ہوئی ہے، کیا حتمی اقدام کے لیے آگے بڑھے گی، یا شاید 2014ء کے اختتام کا انتظار کرے گی؟
آخر میں ثالثی اور وساطت کے درمیان فرق کو دیکھ لیجئے۔ آکسفورڈ ایڈوانس لرنرز ڈکشنری کے مطابق دو فریقوں کے درمیان مصالحت کرانے کا مطلب یہ ہے کہ ”کسی پر رحم ظاہر کرنا، اس کو کسی کام پر رضامندکرنا، یا کسی دلیل کو ثابت کرنے میں مدد کرنا، کسی سے بات کرنا ۔“
کیا حکومت نے مولانا سمیع الحق کو سابق فاتح سوات مولانا فضل اللہ کے ساتھ ان کی اپنی ذمہ داری پر ثالثی یا مصالحت کے لیے کہا ہے، جو سوات کو آج بھی اپنی جاگیر ہی سمجھتے ہیں اور اس کو دوبارہ حاصل کرنے کا عزم ظاہر کرچکے ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں