لاپتہ افراد: بلوچ سیاسی کارکنوں کے 209 مقدمات ریکارڈ
کوئٹہ: بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر کام کرنے والے کمیشن کے قیام سے لے کر اب تک صوبے میں گمشدہ سیاسی کارکنوں کے 209 کیس ریکاڈر کیے گئے ہیں۔
پاکستان کے پسماندہ اور عسکریت پسندی سے متاثرہ صوبے کے محکمہ داخلہ اور قبائلی امور کے متعبر ذرائع نے بدھ کو ڈان ۔ کام کو بتایا کہ اکسٹھ لاپتہ افراد بازیاب ہو چکے ہیں جبکہ چوبیس مسخ شدہ لاشیں صوبے کے مختلف حصوں سے برآمد ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ مطلوبہ دستاویزات کی عدم دستیابی کے باعث چوالیس لاپتہ افراد کے کیس بند کر دیے گئے جبکہ مزید ایک سو چولیس مقدمات سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
حکام کےمطابق وزیر اعلٰی بلوچستان نے متعلقہ محکموں کو لاپتہ افراد سے متعلق مقدمات تیزی سے نمٹانے کی سخت ہدایت کر رکھی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تمام ڈپٹی کمشنروں کو ترجیحی بنیادں پر ہدایت ملی ہیں کہ وہ لاپتہ افراد سے متعلق مقدمات کے بارے میں محمکہ داخلہ کو فوری مطلع کریں۔
وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا تھا:لاپتہ افراد کی بازیابی کے بغیرصوبے میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں کی جا سکتی۔
تاہم، وائس آف بلوچ مسنگ پرسن کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ حکام جان بوجھ کر لاپتہ افراد کی کم تعداد دکھا رہے ہیں۔
نصر اللہ کا دعوٰی ہے کہ ان کی تنظیم کو اب تک صوبے کے مختلف حصوں سے لا پتہ افراد کے 2781 کیس موصول ہو چکےہیں۔
تاہم حکام اس تنظیم کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لا پتہ افراد کی تعداد کم ہے۔
سی بی ایم پی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے۔
حال ہی میں ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں متاثرین اپنے لاپتہ رشتہ داروں کے لیے کراچی سے اسلام آباد کا طویل مارچ کر رہے ہیں تاکہ حکام پر گمشدہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی بازیابی یقینی بنائی جائے۔
محکمہ داخلہ اور قبائلی امور کی طرف سے یہ اعدادوشمار وزیر اعلٰی بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ کے صوبے کے مسائل پر سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے کئی پارٹیوں پر مشتمل کانفرنس منعقد کرانے کے اعلان کے بعد سامنے آئے ہیں۔