مشرف کی طبی رپورٹ پر فیصلہ 29 جنوری کو
اسلام آباد: پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ان کی طبی رپورٹ پر انتیس جنوری کو جرح کرنے کے بعد فیصلہ سنانے کا اعلان کیا ہے۔
ڈان نیوز کے مطابق، جمعہ کو کیس کی سماعت شروع ہوئی تو رجسٹرار عبدالغنی سومرو نے مشرف کی طبی رپورٹ پیش کی، جس کے بعد ججوں نے رپورٹ کا جائزہ لیا۔
اس موقع پر مشرف کے وکیل انور منصور نے درخواست کی کہ میڈیکل رپورٹیں نجی نوعیت کی ہیں لہذا انہیں عام نہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک نجی ٹی وی چینل نے پلہے ہی مشرف کی ابتدائی میڈیکل رپورٹ اپنی ویب سائٹ پر ڈال رکھی ہے، عدالت فوری طور پر اس رپورٹ کو ہٹانے کا حکم جاری کرے۔
اسپیشل پروسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ ملک میں تحریری آئین موجود ہے جو آزادی صحافت کی بات کرتا ہے، مشرف کا دعوٰی ہے کہ وہ ایک عوامی شخصیت ہیں،دنیا بھر میں قانون کے مطابق ایک عوامی شخصیت اور عام آدمی میں فرق ہوتا ہے۔
اس پر انور منصور نے موقف اپنایا کہ قائد اعظم بھِی پبلک فگر تھے اور ان کی طبی رپورٹ آخر تک افشاء نہیں کیا گئی۔
عدالتی کارروائی میں بیس منٹ کے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر بیرسٹر اکرم شیخ نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر اعتراض کر دیا۔
اکرم شیخ نے مطالبہ کیا کہ آغا خان یونیوسٹی ہسپتال، شفاء انٹرنیشنل اور پمز ہسپتال کے ماہر امراض قلب پر مشتمل نیا میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر کو فوج کے ڈاکٹروں پر اعتماد نہیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت انتیس جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا کہ آَئندہ سماعت پر میڈیکل رپورٹ پر جرح کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا۔
طبی رپورٹ ڈان نیوز نے ذرائع کے حوالے سے پرویز مشرف کی طبی رپورٹ کے مندرجات رپورٹ کیے ہیں، جن کے مطابق سابق صدر پاکستان میں انجیوگرافی کرانے کے لیے تیار نہیں اور اپنی مرضی سے بیرون ملک علاج کرانا چاہتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی انجیوگرافی سے متعلق فیصلہ کرنا ضروری ہے۔
رپورٹ میں ان کی دل کی شریانوں کا خاکہ بھی شامل ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں