• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

طالبان کی مذاکرات کی پیشکش کا جائزہ لینا ہوگا، نثار

شائع January 27, 2014
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان—فائل فوٹو۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان—فائل فوٹو۔

اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ طالبان اگر مخلص ہیں تو ان سے بات ہو سکتی ہے‘ قوم جب ایک ایجنڈے پر متفق ہونے جارہی تھی ایسے میں طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے محرکات کا جائزہ لینا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ملٹری آپریشن کا اعلان کسی حکومت کیلئے مشکل کام نہیں ہوتا تاہم اس آگ میں جھونکنے سے پہلے کامیابی اور ناکامی کے تمام پہلوؤں کو دیکھنا ہوگا۔

پیر کو قومی اسمبلی میں مختلف اراکین کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں امن و امان کی صورتحال پر بحث اس لئے نہ سمیٹی جاسکی کیونکہ اپوزیشن بائیکاٹ پر تھی۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اپوزیشن نے کہا کہ اس دوران اب مزید واقعات بھی پیش آچکے ہیں ہم اس پر مزید بات کرنا چاہتے ہیں‘ ہم نے یہ بات بھی تسلیم کی اور مزید بحث کرانے پر اتفاق ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پہلی مرتبہ وزیراعظم یا ایم این اے نہیں بنے۔ وہ اس سے پہلے دو مرتبہ وزیراعظم اور کئی مرتبہ رکن اسمبلی رہ چکے ہیں‘ وہ اس ایوان کا سامنا کرنے سے ہرگز گریزاں نہیں ہیں‘ وہ اس ایوان سے تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں‘ وہ اس ایوان کاا حترام کرتے ہیں۔

آج انہوں نے ایوان میں آنا تھا مگر بعض معاملات میں مزید مشاورت کی ضرورت ہے‘ یہ ملک کا گھمبیر ترین مسئلہ ہے‘ یہ نائن الیون کے بعد شروع ہوا‘ پارلیمانی پارٹی کو 2007ء سے اب تک کی تفصیلات بتائی ہیں۔

2010ء دہشتگردی کے حوالے سے بدترین سال تھا‘ ہم نے قوم سے کبھی کوئی بات نہیں چھپائی ‘ اے پی سی طلب کی پاکستان کی خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہم نے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ 2008ء سے 2011ء تک جتنے دھماکے ہوئے ان سے موجودہ واقعات کی تعداد بہت کم ہے۔ اے پی سی میں سیاست سے بالاتر ہو کر اتفاق رائے پیدا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ایک ایک قدم مشاورت سے اٹھایا مگر پھر بھی کہا جاتا ہے کہ اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ ہمارا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ رابطہ ہوا۔ حکیم اللہ محسود اب زندہ نہیں ہے‘ ان کے دستخط شدہ خط ہمارے پاس موجود ہیں‘ ہم نے سات رکنی کمیٹی تشکیل دی اس کے بعد حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے کے ذریعے ختم کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بڑا نازک معاملہ ہے، طالبان کے کئی گروپوں نے ہماری حکیم اللہ محسود سے بات چیت کی مخالفت بھی کی مگر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم طالبان کی مرکزی قیادت سے ہی بات کریں گے۔

انہوں نے ہم سے کہا تھا کہ مذاکرات کا پہلا مرحلہ خاموشی سے ہوگا۔ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے وزیراعظم سے کہا کہ ہم نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ نہیں کیا مگر ہم آج بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ حکیم اللہ محسود کے بعد طالبان کی نئی قیادت ملا فضل اللہ نے اعلان کیا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے ذمہ دار امریکہ اور پاکستان ہیں وہ مذاکرات نہیں کریں گے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ ہم داخلی سلامتی کی پالیسی بھی بنا رہے ہیں اور بڑی محنت سے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھایا۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات تب ہی کامیاب ہوں گے جب اتفاق رائے ہوگا اور ملٹری آپریشن بھی تب ہی کامیاب ہوگا اور فوج صحیح طرح تب ہی لڑ سکے گی جب یہ ایوان اور پوری قوم اس کے ساتھ ہوگی‘ مشاورت کے بعد چند دنوں بعد وزیراعظم ایوان کو اعتماد میں لیں گے۔

'یہ ایوان فیصلہ کرے کہ مذاکرات کرنے ہیں یا ملٹری آپریشن مگر اپوزیشن میں اتفاق رائے نظر نہیں آرہا‘ ہم مذاکرات کے حوالے سے ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں اس کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جاسکتی۔'

انہوں نے کہا کہ عمران خان سے دوستی اور احترام کا تعلق ہے مگر یہ تنقید میں حد سے گزر جاتے ہیں۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ وزیراعظم کو ایک صحافی نے مشورہ دیا کہ عمران خان‘ مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن سے مذاکرات میں مدد لی جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اچھا مشورہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب ہم فیصلہ کن مرحلے پر کھڑے ہیں۔ پہلے طالبان کی نئی قیادت مذاکرات کیلئے تیار نہیں تھی گزشتہ تین دنوں سے یہ تبدیلی آئی ہے کہ اب وہ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔

'اس حوالے سے جو بھی فیصلہ ہوگا مشاورت سے ہوگا۔ ہمیں اگلا قدم مشاورت اور اتفاق رائے سے اٹھانا ہوگا۔ وزیراعظم نے عسکری قیادت اور پارلیمانی پارٹی سے بات کر چکے ہیں۔ انٹیل جنس ایجنسیوں اور بعض دیگر سے مشاورت باقی ہے۔ ملٹری آپریشن کا اعلان کرنا کسی حکومت کے لئے مشکل نہیں ہوتا۔ ارکان تنقید کے ساتھ ساتھ ہماری رہنمائی بھی کریں۔'

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں فساد ختم کرنے کیلئے جب ہم یک زبان ہوں گے تو ہم سب کا پاکستان سرخرو ہوگا۔

بعد ازاں عمران خان کے ذاتی نکتہ وضاحت کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خا نے کہا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ وزیراعظم کی زیر قیادت ہوا ہے۔

'ٹی ٹی پی کے نائب امیر لطیف اللہ محسود نے مجھ سے براہ راست بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ مجھے اس پر بطور چوہدری نثار بات کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہے مگر میں ملک کا وزیر داخلہ ہوں اس لئے بات نہیں کی۔'

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم ایک گروپ سے بات کرتے ہیں تو دوسرا اعتراض کرتا ہے۔

'پاکستان کے مفاد پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کریں گے'

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ جہاں پاکستان کا مفاد ہوگا اس پر کوئی سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کریں گے۔

'طالبان کے خلاف آپریشن یا مذاکرات کے حوالے سے جو بھی آپشن استعمال کیا جانا ہے اس بارے میں ہمیں اعتماد میں لیا جائے۔'

پیر کو قومی اسمبلی میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزیرداخلہ کا کہنا درست ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے‘ مجھے ان کی نیک نیتی پر مکمل اعتماد ہے‘ انہوں نے بہت محنت کی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ملک اس وقت جس صورتحال کا شکار ہے وزیراعظم کو اس حوالے سے قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی خفیہ معاملہ ہے تو ہمیں اعتماد میں لیا جائے۔ یہ ملک کے مفاد کا معاملہ ہے اس میں کوئی پوائنٹ سکورنگ نہیں ہے۔

عمران خان نے مزید کہا کہ جو چیز منظر عام پر نہ لانا چاہیں تو ہم وہ منظر عام پر نہیں لائیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Jan 27, 2014 10:11pm
آگر‏ ‏مگر‏ ‏نہیں‏ ‏فیصلہ‏ ‏کرنا‏ ‏ھے‏ ‏دو‏ ‏ٹوک‏ ‏واضح‏ ‏اور‏ ‏صاف‏ ‏‏"جنگ‏ ‏يآ‏ ‏مزاکرات‏" اپوزیشن‏ ‏اور‏ ‏حکومت‏ ‏دونوں‏ ‏اس‏ ‏پر‏ ‏سیاست‏ ‏کررہے‏ ‏ھیں‏ ‏جوکہ‏ ‏قوم‏ ‏کے‏ ‏ساتھ‏ ‏مزاق‏ ‏ھے‏ ‏اللہ‏ ‏کی‏ ‏واسطے‏ ‏یہ‏ ‏سیاست‏ ‏کا‏ ‏معاملہ‏ ‏نہیں‏ ‏سنجیدہ‏ ‏اور‏ ‏اھم‏ ‏مسئلہ‏ ‏ھے‏ ‏سینکڑوں‏ ‏ہزاروں‏ ‏لوگ‏ ‏اس‏ ‏دہشت‏ ‏گردی‏ ‏کی‏ ‏خوراک‏ ‏بن‏ ‏چکی‏ ‏ھے‏ ‏اور‏ ‏سلسلہ‏ ‏جاری‏ ‏ھے‏ ‏اب‏ ‏اس‏ ‏مسئلے‏ ‏کا‏ ‏کوئی‏ ‏ٹھوس‏ ‏اور‏ ‏دیرپا‏ ‏حل‏ ‏نکالئے‏ ‏‏‏

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024