• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پابندی، لیکن کارروائی نہیں

شائع February 5, 2014
کالعدم تنظیموں کی فہرست، اس بنیاد پر کاروائی نہ کی وزارتِ داخلہ کا یہ قدم بے معنیٰ ہے۔ فائل فوٹؤ۔۔۔
کالعدم تنظیموں کی فہرست، اس بنیاد پر کاروائی نہ کی وزارتِ داخلہ کا یہ قدم بے معنیٰ ہے۔ فائل فوٹؤ۔۔۔

وزارتِ داخلہ کے ادارے نیشنل کرائسس منیجمنٹ سیل نے سن دو ہزار ایک سے اب تک، دہشت گرد خیال کی جانے والی ساٹھ تنظیموں پر پابندی عائد کی ہے۔ اتوار کو 'ڈان' میں، ان کالعدم تنظیموں کی شائع ہونے والی فہرست سے کم از کم دو سوالات جنم لیتے ہیں۔

اول، کس بنیاد پر حکومت نے کامیابی سے یہ تجزیہ کیا اور پابندی لگانے کے لیے ان گروپوں کے خلاف ثبوت کیا تھے؟

اس فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ جن پر پابندیاں لگائی گئیں، ان میں سے کئی گروپ سیاسی، فوجی اور عالمی دباؤ اور رسوخ کے ساتھ کام کررہے تھے۔

کسی ایک سیاسی گروپ پر، نسلی حقوق کا چمپئین ہونے یا پھر دہشت گرد تنظیم کا لیبل چسپاں کردینا دُہرا نقصان ہے: یہ شہریوں کو سیاسی وابستگی کے خاطر ملنے والی آئینی آزادی کے برخلاف ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی حقیقی خطرے، یعنی صحیح معنوں میں دہشتگرد تنظیموں، سے نمٹنے کے اقدامات کی طرف سے بھی بھٹکاتا ہے۔

یا پھر اس سے، پاکستان کے اندر کام کرنے والی ایسی تنطیموں اور گروپوں کی اہلیت کو بُری طرح کُچلا جاچکا ہے؟

کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں نے پابندی کے فوراً بعد نام بدلا اور پھر نئے نام کا چولا پہن کر وہی پرانی سرگرمیاں دوبارہ زور و شور سے شروع کردیں۔ جہاں تک منجمد بینک اکاؤنٹس کا تعلق ہے، تنظیموں نے چندہ جمع کرنے اور آمدنی پیدا کرنے کے دیگر ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے اپنے خزانے بھرلیے۔

جہاں تک ان تنظیموں کے بعض رہنماؤں کو حراستی قوانین کے تحت گھروں پر نظر بند کیے جانے کا تعلق ہے تو جلد ہی انہیں دوبارہ سرگرم ہونے کی بھی اجازت دے دی گئی تھی۔ اگر کسی نہایت منفرد واقعے میں، ان پر مقدمہ قائم بھی کیا گیا تو ملوث کیے جانے والے کے قانونی ماہرین پر مشتمل ٹیم، سرکاری وکلا کے گرد حصار ڈالے رہی۔

اگر اس میں کافی حد تک ریاست کی غلطیاں ہیں تو کالعدم تنظیموں کو پکارتی سیاسی جماعتوں نے بھی ان کے جواز کی خاطر اپنا کردار ادا کیا ہے۔

سرکاری اور قومی سطح پر انکار کے باوجود مقامی، انتخابی حلقوں کی سطح پر ایک نہیں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے ان کے ساتھ نہ صرف انتخابی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیں بلکہ کہیں کہیں ان کالعدم تنظیموں کے ساتھ انتخابی اتحاد بھی قائم کیے، یہ نہ صرف معمول کی بات ہے بلکہ کسی ایک خاص صوبے کی حد تک محدود بھی نہیں۔

ان دہشتگرد تنظیموں کو دیوار سے لگانے اور پھر بتدریج ان کے خاتمے کی ذمہ داری یقینی طور پر ان کے ساتھ ملوث تمام فریقین پر عائد ہوتی ہے لیکن اس کے بجائے، اُن کے پھیلاؤ اور شدت میں اضافے کا الزام یہ ایک دوسرے پر لگاتے ہیں۔

سویلین نقطہ نظر فوج کو بعض عسکریت پسند تنظیموں کی حمایت کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سب کچھ سیاست کی بھینٹ چڑھادینے پر سویلین کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے جبکہ ریاست کے مختلف عناصر کہتے ہیں کہ یہ عدلیہ کا نقص ہے جو دہشتگردوں کو بری کردیتی ہے یا پھر یہ حکومت اور قانون ساز ارکان وغیرہ کی ہی خرابی ہے۔

ملوث کرنے اور ذمہ دار ٹھہرانے کی خاطر، ایک دوسرے کی طرف اشارہ کرتی، ان اٹھی انگلیوں کے مابین، صرف ایک ہی ناقابلِ تردید سچائی موجود ہے: دہشت گرد گروپ پھیلتے پھیلتے اس مقام تک پہنچ چکے کہ جہاں ریاست نے قریباً قریباً ان کے سامنے ہاتھ کھڑے کردیے بلکہ پاکستانی نظام کے اندر انہیں بطور شراکت دار، قبول بھی کرچکے ہیں۔

اگر کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کے خلاف، اس بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو وزارتِ داخلہ کی طرف سے اس فہرست کی تیاری اور انہیں مشتہر کرنے کا عمل بے مقصد و بے معنٰیٰ ہے۔

انگریزی میں پڑھیں

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024